یہ بحث ملک کے طول و عرض میں ہر زبان زد وعام ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کے ممبران کو استعفےٰ دینے چاہیئے تھے یا نہیں ایک موقف یہ ہے کہ تحریک انصاف کو پارلیمنٹ سے استعفےٰ نہیں دینے چاہیئے تھے اور پارلیمنٹ میں رہ کر اپنی جماعت کا موقف برملا پیش کرنا چاہئیے تھا چونکہ عام انتخابات کا اعلان جلد یا بدیر یقینی طور پر ضرور ہوگا اور نگراں حکومت کا قیام حکومت اور اپوزیشن کی مرضی کے مطابق عمل میں لایا جائے گا تحریک انصاف نگران وزیراعظم کی نامزدگی میں اپنا کردار ادا کرسکتی تھی شہبازشریف حکومت کے لئے میدان اس لئے بھی نہیں چھوڑنا چاہئے تھا چونکہ اب تو وہ دیگر معاملات میں بھی اپنی مرضی کے اقدامات کر سکیں گئے ممکنہ طور پر وہ اورسیزز پاکستانیوں کے ووٹوں کا حق ان سے چھین سکتے ہیں تحریک انصاف کی جانب سے الیٹکرونک ووٹنگ مشین سسٹم ختم کر سکتے ہیں قومی احتساب بیورو کا ادارہ بھی ختم کرسکتے ہیں تاکہ حکومت میں شامل جماعتوں کے سارے کیس ہی نیپ میں ختم کر دیئے جائیں نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری – الیکشن میں دھاندلی کروانے کے لئے ساری بیوروکریسی کو متحرک کیا جائے گا چونکہ پرانے پاکستان کے حکمرانوں کا یہی خاصا رہا ہے اسی لئے تحریک انصاف کا ووٹر سپورٹر اور عام پاکستانی یہی سوچتا ہے کہ عمران خان کا راستہ روکنے کے لئے یہ جماعتیں اور حادثاتی امپورٹڈ حکمران کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں چونکہ عمران خان ہی تحریک انصاف ہے اور تحریک انصاف ہی عمران خان ہے پہلے صرف دیسی امپائرز ہوتے تھے اب تو امپورٹڈ امپائرز بھی عمران خان کا راستہ روکنے کے لئے متحرک ہیں
دوسری قسم کے پاکستانیوں کی رائے یہ ہے کہ استعفیٰ دینے سے پی ٹی آئی کی عوامی ہمدریوں میں بہت ہی زیادہ اضافہ ہوا ہے چونکہ جو کام اپوزیشن ساڑھے تین سالوں میں نہیں کرسکی عمران خان نے دو دنوں میں کرکے دکھایا ہے اپوزیشن کہتی رہی کہ وہ استعفےٰ دے گئی لیکن اپوزیشن کی ہوس اقتدار کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکی جبکہ عمران خان نے گھنٹوں میں عملی طور پر یہ ممکن بنا دیا اور کرکے دکھا دیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پی آئی آئی کی اعلیٰ قیادت اقتدار اور کرسی کے لئے نہیں ہے بلکہ ملک وقوم کے وقار کے لئے کام کرتی ہے اس میں تو شک نہیں ہے کہ پاکستان کی سیاست و معیشت پر ابتداء سے ہی مغرب کا قبضہ رہا ہے جسے پہلی بار ایک مرد مومن نے چیلنج کیا ہے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ملک کی دینی جماعتیں جنہوں نے ساری زندگی امریکہ اور امریکہ نواز قوتوں کے خلاف اسلامی جہاد کیا ہے اور نعرے اور دعوئے کرتی چلی آرہی ہیں ان کو بھی اب سانپ سونگھ گیا ہے
بقول شاعر
پہلے تو آکے شیخ نے دیکھا ادہر آ دہر
پھر سر جھکا کر داخلِ مہَ خانہ ہوگیا
چلتے چلتے ان احباب اور نادان دوستوں کی حالت زار پر بھی ترس آتا ہے جو نیپ زدہ ان لیڈروں کے ساتھ اپنی تصویریں شئیر کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ملک تباہ ہوا اور ہم وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں قرآن پاک میں آتا ہے تم قیامت کے روز ان ہی لوگوں کے ساتھ آٹھو گئے جن کے ساتھ تمہاری دوستی اور وفا تھی آج سچ کے ساتھ کھڑا ہوکر ثابت قدمی اور ایمانی قوت درکار ہے ایک طرف سچ ہے اور دوسری طرف سارے آزمودہ چہرے ہیں
راحت اندوری نے کہا تھا
بن کے حادثہ بازار میں آجائے گا
جو نہیں ہوا وہ اخبار میں آجائے گا
چور اچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں
کون کب کونسی سرکار میں اجائے گا
Comments are closed.