اسلام آباد:قومی سلامتی کمیٹی نے ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جامع آپریشن کی منظوری دے دی، جس کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو ایک ہفتے میں سفارشات پیش کرے گی۔میڈیا کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے سربراہان، سندھ اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے شرکت کی۔
اجلاس میں وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، وزیر خزانہ، وزیر دفاع اور وزیر اطلاعات و نشریات نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں امن و امان کی صورتحال داخلی اور خارجی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں حساس اداروں کے سربراہان نے قومی سلامتی پر بریفنگ دی۔
اجلاس کے دوران شرکا نے ملک کے مختلف حصوں میں شرپسندی کے خلاف جاری کارروائیوں پر اطمینان کا اظہار کیا، دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والوں کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا، بلوچستان میں کالعدم تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری پر اداروں کو خراج تحسین پیش کیا۔قومی سلامتی کونسل کا اکتالیسواں (41) اجلاس جمعہ کے روز وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اجلاس کی صدارت کی جس میں وفاقی وزرا چئیرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ، سروسز چیفس اور متعلقہ اداروں کے اعلی حکام نے شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس 2 جنوری 2023 کوپشاورپولیس لائنز میں دہشت گردی کے حملے کے بعد منعقدہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے تسلسل میں ہوا۔ جس کے آغاز میں 7 اپریل 2012 کو سانحہ گیاری سیکٹر کے شہداءکو خراج عقیدت پیش کیاگیا۔اجلاس کے شرکا نے جامع قومی سلامتی پر زور دیتے ہوئے عوام کے ریلیف کو مرکزی حیثیت قراردیا۔ شرکا کو آگاہ کیا گیا کہ حکومت عوامی ریلیف کے لیے اقدامات کررہی ہے۔اجلاس نے قوم کو پائیدار امن کی فراہمی کے لئے سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں اور کاوشوں کا اعتراف کیا اور پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے تک اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔
شرکا نے دہشت گردی کی حالیہ لہر کو کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا اور اسے عوامی توقعات و خواہشات کے بالکل منافی قرار دیا۔ شرکا کا کہنا تھا کہ کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی ناصرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کیا گیا۔ واپس آنے والے اِن خطرناک دہشت گردوں اور افغانستان میں بڑی تعداد میں موجود مختلف دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے مدد ملنے کے نتیجے میں ملک میں امن واستحکام منتشر ہوا جو بے شمار قربانیوں اور مسلسل کاوشوں کا ثمر تھا۔
Comments are closed.