سیکڑوں سابق افغان فوجیوں کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دینے کا فیصلہ

20

لندن:برطانوی حکومت نے سیکڑوں سابق افغان فوجیوں کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دینے کافیصلہ کیاہے۔ ۔برطانوی وزیردفاع لیوک پولارڈ نے پارلیمنٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ آبادکاری کے لیے 2ہزاردرخواستوں میں سے25فیصد غلط طریقے سے مسترد کی گئی تھیں،جنہیں اب منظورکرلیاگیا،کیوں کہ ہماری حکومت سے تنخواہ لینے افغان فوجی برطانیہ میں دوبارہ آبادکاری کے اہل ہیں۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ان فوجیوں کا تعلق افغان اسپیشل فورسز سے تھا جس نے طالبان کے خلاف جنگ میں برطانوی فوج کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا۔2021میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد بڑی تعداد میں افغان فوجی اپنے خلاف کارروائی کے خوف سے بیرون ملک منتقل ہوگئے ۔برطانوی اسپیشل فورسز کے ساتھ کام کرنے والے افغان اہلکاروں کو ٹرپلز کا نام دیا گیا۔ تاہم اس فورس سے تعلق رکھنے والے 2 ہزار افغان اہلکاروں کی برطانیہ میں آبادکاری کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔

نام نہاد ٹرپلز افغان فوجیوں کی ایلیٹ یونٹ کو کہا جاتا ہے جسے برطانیہ نے بنایا اور مالی وسائل فراہم کیے تھے۔ طالبان نے حکومت میں آنے کے بعد ٹرپلز کے اہلکاروں کو بالخصوص نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔اب نئی پیش رفت کے مطابق برطانوی وزیر دفاع لیوک پولارڈ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ درخواستوں کا نئے سرے سے جائزہ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ کچھ درخواستیں غلط طریقے سے مسترد کر دی گئی تھیں، تاہم اس میں ہماری کوئی بدنیتی شامل نہیں تھی۔

پولارڈ نے بتایا کہ حکومت نے 25 فیصد مسترد کی جانے والی درخواستیں اب منظور کرلی ہیں، کیونکہ جائزے میں نئے شواہد ملے ہیں کہ کچھ افغان فوجیوں کی تنخواہیں براہ راست برطانیہ کی حکومت ادا کرتی تھی، جس کے باعث وہ دوبارہ آبادکاری کے اہل ہیں، اور اس ثبوت کو ان کی درخواستوں میں نظر انداز کردیا گیا تھا۔وزیر دفاع نے کہا کہ حکومت نے بہت سے معاملات کا فوری جائزہ لیا ہے کیونکہ طالبان حکومت میں بہت سے سابق افغان فوجیوں کو خطرہ لاحق ہے، تاہم انہوں نے واضح کیاکہ درخواستوں کا اچھی طرح جائزہ لیا جائے گا اور ضروری نہیں کہ تمام ٹرپلز کی درخواستیں منظور کرلی جائیں۔

Comments are closed.