درخواستیں مسترد، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون کے مطابق قرار

80

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے خلاف تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔

میڈیا کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو ساڑھے پانچ بجے سنائے جانے کا کہا گیا تھا تاہم فیصلہ ساڑھے چھ بجے سنایا گیا جو کہ چیف جسٹس نے سنایا۔

سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کردیں۔ یہ اکثریتی فیصلہ ججز کے دس پانچ کے تناسب سے سنایا گیا جس میں دس ججز نے حق میں اور پانچ نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ بینچ کے پانچ ججوں نے اختلافی نوٹ دیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، منیب اختر، مظاہرنقوی، محمد شاہد وحید اور جسٹس عائشہ نے اختلافی نوٹ دیا ہے، مختصر فیصلہ دیا جارہا ہے تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔

فیصلے میں سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ کا اطلاق ماضی سے کرنے کی شق غیر آئینی قرار دے دی اور اس سے متعلق شق آٹھ ججز کی اکثریت نے مسترد کر دی تاہم آرٹیکل 184 تین کے تحت مقدمات کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دے دیا گیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ 9،6 کی اکثریت سے قانون بننے کے بعد اپیل کا حق آئینی قرار دیا جاتا ہے۔

اپیل کا حق ماضی سے دینے کی حمایت کرنے والوں میں چیف جسٹس، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

اسی طرح چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کے معاملے پر 10 پانچ کے تناسب سے فیصلہ کیا گیا۔ 10ججز نے 184/3 کے لیے تین رکنی کمیٹی کے قیام کو درست قرار دیا۔ تین رکنی کمیٹی کی مخالفت کرنے والوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے۔ جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے ایکٹ کے ماضی سے اطلاق کی شق کو برقرار رکھا۔

Comments are closed.