پاکستان اور ترکی کے تاریخی تعلقات مثالی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف

336

اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان اور ترکی کے تعلقات کو سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔

ترک خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی کے تاریخی تعلقات مثالی ہیں، یہ سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی بنیادی قومی مفاد کے تمام معاملات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر اصولی حمایت کے لیے ترکی کے شکر گزار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر ایک جیسے خیالات اور دوطرفہ تعاون رکھتے ہیں، ترکی کے ساتھ اب اقتصادی تعاون پر توجہ دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لیے منافع بخش سرمایہ کاری کے بےشمار مواقع موجود ہیں۔پاک امریکا تعلقات پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں میں دیرینہ اور وسیع البنیاد تعلقات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاک امریکا تعمیری مصروفیات خطے میں امن و سلامتی اور ترقی کو فروغ دے سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی، صحت، توانائی، تجارت، سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔

وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی اور ترسیلات زر کا بڑا ذریعہ ہے۔پاک چین تعاون اور چینی سرمایہ کاری پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو میں تعاون پُرامن اور خوشحال خطے کے لیے پاکستان کے وژن کے مطابق ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے پاک چین مشترکہ وژن اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو نظریات کامیابی سے پورے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کا نیا مرحلہ اور پاک چین بی آر آئی تعاون پاکستان کی صنعتی، اقتصادی جدت کو تیز کرے گا۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارت کے 5 اگست 2019 کے غیرقانونی یکطرفہ اقدامات پر پاکستان کا اصولی مؤقف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان محصور کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے بھارتی فیصلے کی مذمت کرتا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت سے مسلسل انکاری بھارت سے تجارتی پیشرفت کا تصور بھی مشکل ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لیے بھارت کو 5 اگست 2019 کے اپنے اقدامات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ باہمی فائدہ مند تجارت اور بات چیت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔

افغانستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ افغان عبوری حکومت کے ساتھ معاملات انتخاب نہیں بلکہ ضرورت ہیں، دنیا کو افغانستان کے انسانی بحران اور کمزور معیشت سے نمٹنے کی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ افغان معیشت کا مکمل خاتمہ افغانوں، پاکستان اور عالمی برادری کے لیے تباہ کن ہوگا۔ افغانستان میں عدم استحکام کا اثر پڑوس اور اس سے باہر بھی اثرانداز ہوگا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ غیر مستحکم افغانستان سے پناہ گزینوں کا اخراج اور دہشت گردی کسی کے مفاد میں نہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان عبوری حکومت پر ان کے بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری کے لیے زور دے رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری کو ان وعدوں کی پاسداری کے لیے افغان حکومت کے ساتھ رہنا چاہیے۔

کالعدم ٹی ٹی پی سے ثالثی میں طالبان کے کردار سے متعلق سوال پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ کابل حکام نے اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کابل حکام نے تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی اور تمام محفوظ پناہ گاہیں ختم کرنے کا بھی کہا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ عالمی برادری کی طرح ہمیں بھی کابل حکام سے ان کے اپنے وعدوں پر قائم رہنے کی توقع ہے۔ ہم دہشت گردی کو شکست دینے، خطے اور اپنے ملک میں امن و استحکام کے لیے تمام راستے اپنائیں گے۔

Comments are closed.