ڈی این ایس کیا ہے اور کیا یہ سینٹرلائزیشن پاکستانی انٹرنیٹ صارف کا جینا دو بھر کر سکتی ہے؟

147

محمد صہیب

پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی، اس پر موجود مواد پر پابندی اور پرائیویسی سے متعلق خدشات پر بحث تو آئے روز سننے کو ملتی ہے لیکن گذشتہ چند روز سے یہاں ‘ڈی این ایس’ نامی اصطلاح کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

اس کی وجہ متعدد ایسی خبروں کی اشاعت ہے جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) پاکستان میں سینٹرلائزڈ ڈی این ایس کنٹرول کی پالیسی کے نفاذ پر غور کر رہی ہے جسے ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی جانب سے ‘انٹرنیٹ کے ڈھانچے پر حملہ’ قرار دیا گیا ہے۔

تاہم منگل کو پی ٹی اے کی جانب سے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے گیا ہے کہ ‘پی ٹی اے نے پیکا کے سیکشن 37 کے تحت محض غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کے لیے خود کار نظام کا نفاذ کیا ہے۔’

اعلامیے میں بعض جریدوں پر شائع ہونے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘ہم نے ایسا سنٹرلائزڈ ڈی این ایس کنٹرول نافذ نہیں کیا جہاں ریزولوشن سینٹرلائزڈ ہو گی بلکہ تمام ریزولوشن انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز (آئی ایس پیز) کی سطح پر ہو گی۔’

اس حوالے سے گفتگو کا آغاز روزنامہ ڈان میں چھپنے والی ایک خبر سے ہوا جس میں پی ٹی اے اور آئی ایس پیز کے درمیان سینٹرلائزڈ ڈی این ایس کنٹرول کے حوالے سے اختلافات کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

خبر کے مطابق آئی ایس پیز کو اس پالیسی کے حوالے سے انٹرنیٹ سروسز متاثر ہونے اور اس پر آنے والے اخراجات میں اضافے پر تحفظات تھے۔

پی ٹی اے کے اعلامیے میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘‏یہ اقدام پاکستان کے آئی ایس پیز کے ساتھ مشاورت اور وسیع غور و خوض کے بعد اٹھایا گیا ہے۔’

‘اس حالیہ پیش رفت سے انٹرنیٹ خدمات کی قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، انٹرنیٹ کی رفتار میں کمی نہیں ہو گی اور نہ ہی شہریوں کی رازداری (پرائیویسی) پر کوئی اثر پڑے گا۔’

تاہم ڈان اخبار میں ہی شائع ہونے والے ایک تجزیے کے بعد پی ٹی اے کی جانب سے ایک مفصل تردید جاری کی گئی، جس میں اس کالم میں کیے گئے تمام دعوؤں کو مسترد کیا گیا۔

اس حوالے سے پی ٹی اے کی تردید کے باوجود سوشل میڈیا پر اکثر افراد اس بارے میں سوالات پوچھ رہے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا اگر ایسی کوئی پالیسی نافذ کی جاتی ہے تو اس کے اثرات عام صارف پر کیا ہو سکتے ہیں۔

ڈی این ایس کیا ہے؟

ایلگزر ٹیکنالوجی میں سینیئر مینیجر آئی ٹی کامران خان نے ڈی این ایس سے متعلق تفصیلات بتائی ہیں جن کا مفہوم بیان کیا جا رہا ہے۔

جب بھی کسی ویب سائٹ کی رجسٹریشن ہوتی ہے تو اسے ایک آئی پی ایڈرس دیا جاتا ہے جو عددی روپ میں ہوتا ہے مثلاً 202.164.154.129۔

ایسے اربوں ایڈرس اس وقت موجود ہیں۔ ایسے میں عام صارف کی آسانی کے لیے اسے ایک نام دیا جاتا ہے جس کی میپنگ ڈومین نیم سسٹم یعنی (ڈین این ایس) کہلاتی ہے۔

آپ اسے یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک فون ڈائریکٹری ہے جس میں متعدد افراد کے نام اور نمبر درج ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل ڈاٹ کام کا آئی پی ایڈرس (165 181 250 142) ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس نمبر کو یاد رکھنے سے ’گوگل ڈاٹ کام‘ یاد رکھنا زیادہ آسان ہے۔

یعنی آپ کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ جس ویب سائٹ کا ایڈرس آپ نے سرچ بار میں لکھا ہے اس کا آئی پی یڈرس کیا ہے، تاہم اسے آپ نیٹ ورکس کے درمیان بولی جانے والی زبان یا ویب سائٹس کا پی او باکس نمبر کہہ لیجیے۔

ڈی این ایس سینٹرلائزڈ کنٹرول سے کیا مراد ہے؟

اب اگر آپ کو یہ انتہائی پیچیدہ اصطلاح سمجھ آ گئی ہے تو کامران خان سے جانتے ہیں کہ اس کے سینٹرلائزڈ کنٹرول سے کیا مراد ہے۔

یوں سمجھ لیجیے کہ اگر پی ٹی اے کو کسی بھی ویب سائٹ کو بلاک کرنا ہوتا ہے، تو اس کی درخواست لے کر اسے آئی ایس پیز کے پاس جانا پڑتا ہے جو ڈی این ایس سرور سے اس کا آئی پی ایڈرس ڈھونڈنے سے منع کر دیتی ہیں۔

یعنی اگر ملک میں ٹوئٹر ڈاٹ کام پر پابندی لگ جائے تو دراصل جب آپ اس کا یو آر ایل براؤزر میں لکھیں گے تو ڈی این ایس سرور اس کا آئی پی ایڈرس ڈھونڈ کر ہی نہیں دے گا۔ یوں نہ ہو گا آئی پی ایڈرس، نہ کھلے گی ویب سائٹ۔

تاہم سینٹرلائزڈ ڈی این ایس کنٹرول کے باعث پی ٹی اے مبینہ طور پر یہ طاقت بھی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے، یعنی ایک ہی مرکزی ڈی این ایس سرور جو تمام ایسی درخواستوں کے آئی پی ایڈرسز کی مراد پوری کرے۔

اگر پی ٹی اے نے اس کا نفاذ نہیں کیا تو پھر مسئلہ کیا ہے؟

ڈیجیٹل حقوق کے حوالے سے سرگرم تنظیم بولو بھی کے شریک بانی اسامہ خلجی کے ڈان میں لکھے گئے تجزیے کے بعد پی ٹی اے نے تردید جاری کی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘یکم جون کو پی ٹی اے کی جانب سے بلائے گئے اجلاس جس میں ملک کے تمام ٹیلی کام آپریٹرز بھی موجود تھے، اجلاس میں نہ صرف سینٹرلائزڈ ڈی این ایس کنٹرول سے متعلق بھی بات ہوئی بلکہ عالمی ڈی این ایس سرورز کو بلاک کرنے سے متعلق بھی بات ہوئی ہے۔‘

‘اگر ایسا کچھ سوچا ہی نہیں جا رہا تو پھر اس بارے میں اجلاس کیوں بلائے جا رہے ہیں اور یہ مسئلہ مجھ سے پہلے تو آئی ایس پیز کی جانب سے اٹھایا جا چکا ہے۔’

تاہم سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی اے نے تردید بھی جاری کر دی ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم بائٹس فار آل کے شہزاد احمد کہتے ہیں ‘یہ جانتے ہوئے کہ پی ٹی اے کیسے کام کرتا ہے اور یہ عوام دوست فیصلے نہیں کرتا تو ہم کسی بھی صورت میں اس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘اگر آج یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا، تو ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک ہفتے کے بعد ایسا کریں گے یا نہیں کیونکہ ہمیں نہیں معلوم۔’

وہ اس کی مثال پی ٹی اے کی جانب سے ویب فلٹریشن سافٹ ویئرز کے مبینہ استعمال سے بھی دیتے ہیں۔

پی ٹی اے پر ماضی میں انٹرنیٹ فلٹریشن سافٹ ویئر استعمال کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں، تاہم ادارے نے کبھی بھی باضابطہ طور پر ایسے کسی معاہدے یا سافٹ ویئر کی خریداری کی تصدیق نہیں کی۔

تاہم ادارے کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے کے حوالے سے کہی گئی باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی اے کی جانب سے اقدامات پی ای سی اے 2016، پاکستان ٹیلی کام (ری آرگنائزیشن) ایکٹ، 1996 اور دیگر قواعد و ضوابط کے تحت اٹھائے جاتے ہیں اور انٹرنیٹ کے حوالے سے مجوزہ اقدامات بھی قوانین کے مطابق ہیں۔

کیا ایسے کسی ممکنہ اقدام سے انٹرنیٹ استعمال کرنے میں مسائل درپیش ہوں گے؟

صارفین اس بارے میں بھی خاصے پریشان ہیں کہ کہیں انھیں اس نئے اقدام کی بدولت کسی ویب سائٹ سے مستقل طور پر رخصت نہ ہونا پڑے۔

شہزاد احمد کے نزدیک ایسا نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ جو مرضی کرتے رہیں، لوگوں کے پاس آپشن ہیں، لوگ وہ استعمال کر کے اسے بائی پاس بھی کرتے رہیں گے۔

‘انھوں نے اس سے پہلے بھی چیزیں بلاک کیں تو لوگوں نے وی پی اینز استعمال کیے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘پی ٹی اے نے اپنی پالیسیوں کی بنیاد ہی قومی سلامتی، توہین آمیز مواد یا مذہبی مواد پر رکھی ہوئی ہے تو ہم ان سے کیا توقع کر سکتے ہیں

‘پی ٹی اے کا کردار تو یہ بھی ہے کہ وہ موجودہ سروسز کو بہتر بنائیں، لوگوں تک انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کام کریں، اس طرف تو ان کا دھیان ہے ہی نہیں۔’

شہزاد احمد نے کہا کہ میرا نہیں خیال اس سے کوئی فرق پڑتا ہے، ہم انھیں 2010 سے بتا رہے ہیں کہ آپ انٹرنیٹ کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔’

انھوں نے کہا کہ ‘آپ لوگوں کی انٹرنیٹ کے ذمہ دارانہ استعمال کی جانب توجہ دلوائیں نہ کہ ہر چیز پر پابندی عائد کرنا شروع کر دیں۔’

کامران خان بھی شہزاد کی اس بات سے متفق ہیں کہ سینٹرلائزڈ ڈی این ایس کنٹرول کے باوجود بھی مواد پر مکمل پابندی لگانا ممکن نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘انٹرنیٹ کا ایک بہت بڑا حصہ جہاں ایسے غیر قانونی کام ہوتے ہیں وہ تو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، اور جو انٹرنیٹ ہماری نظروں کے سامنے ہے اس کی تو پہلے ہی نگرانی ہوتی ہے تو اگر اس پر پابندی عائد ہو گی تو لوگ وی پی اینز کا استعمال کر لیں گے۔

‘پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی کتنی محدود ہو گی اس کا دارومدار اس بات پر بھی ہے کہ پی ٹی اے کے ارادے کیا ہیں۔’

Comments are closed.