لندن:نئے اعدادوشمار سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انگلینڈ میں گزشتہ تعلیمی سال کے دوران سرکاری فنڈ سے چلنے والے اسپیشل ،پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے 22.5 فیصد طلبہ مستقل کلاسوں سے غیر حاضر پائے گئے جبکہ کلاسوں کے وقت سے کم از کم 10 فیصد وقت کلاسوں سے غائب رہنے والے طلبہ کی تعداد بھی 1.6 ملین سے زیادہ تھی۔ محکمہ تعلیم کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوا ہے کہ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران کلاسوں سے غائب رہنے والے طلبہ کی تعداد اس سے پہلے والے سال کے مقابلے میں 10.4فیصد زیادہ تھی، جو طلبہ مستقل کلاسوں سے غیر حاضر رہے۔
ان 120,000طلبہ اپنے 50 فیصد اسباق نہیں پڑھ سکے۔ انگلینڈ کی چلڈرنز کمشنر کا کہنا ہے کہ بچوں کی غیر حاضری کے اعدادوشمار پر انھیں شدید پریشانی ہے۔ چلڈرنز کمشنر ڈیم راکیل ڈی سوزا نے 7 مارچ کو دارالعوام کی تعلیم سے متعلق سیلکٹ کمیٹی کو بتایا کہ کورونا کے بعد سے جمعہ کو اسکولوں سے غائب رہنے والے طلبہ کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرائمری اسکولوں کے17.7فیصد اور سیکنڈری اسکولوں کے 27.7فیصد طلبہ اپنے 10 فیصد سے زیادہ اسباق کی تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔
ڈیٹا سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلسل اسکولوں سے غائب رہنے والوں میں اسکولوں کے مفت کھانے کے مستحق بچے، اقلیتی نسلی پس منظر سے تعلق رکھنے والے یا خصوصی تعلیمی ضروریات کے حامل بچوں کی اکثریت تھی۔ گزشتہ سال بچوں کی غیر حاضری کی وجہ سے مجموعی طورپر اسکولوں کے 7.6 فیصد دنوں کا نقصان ہوا جبکہ اس سے پہلے کے تعلیمی سال کے دوران یہ نقصان4.6 فی صد تھا۔ گزشتہ سیلکٹ کمیٹی سے قبل ڈیم راکیل نے کہا تھا کہ اسکولوں سے بچوں کے غائب رہنے کی اصل وجوہات میں ان کی تعلیمی ضروریات کا پورا نہ ہونا، گھبراہٹ اور دماغی صحت کے مسائل شامل ہیں۔
انھوں نے بتایا تھا کہ طلبہ کا ایک گروپ ایسا بھی ہے جو کورونا کے بعد سے اسکول واپس نہیں آیا۔ محکمہ تعلیم کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ بچوں کی اکثریت اسکولوں میں ہے اور تعلیم حاصل کررہی ہے، ہم اسکولوں، ٹرسٹس، گورننگ باڈیز اور لوکل حکام کے قریبی تعاون سے ان طلبہ کی نشاندہی کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو اسکول کے غائب ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں یا جو مستقل اسکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں اور ہم ان طلبہ کی بھی مدد کررہے ہیں، جو مستقل باقاعدگی کے ساتھ اسکول پہنچ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
Comments are closed.