عدالتی اصلاحات سے متعلق بل قومی اسمبلی میں پیش

86

اسلام آباد:قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کیلیے قانون سازی کا بل پیش کردیا گیا جس کے تحت کسی بھی از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز کریں گے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحات سے متعلق (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023) وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ اسپیکر نے ارکین اسمبلی کی درخواست پر بل پر مزید غور کیلئے قائمہ کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے قانون سازی کیلئے کل ہی کمیٹی رپورٹ ایوان میں پیش کرنے کی ہدایت کردی، قومی اسمبلی اجلاس کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اپیل دائر ہونے کے چودہ روز کے اندر درخواست کو سماعت کیلئے مقرر کرنا ہوگا۔

وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے بل سے متعلق ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز آئین اور قانون کے تابع ہیں، عدالتی تاریخ دیکھیں تو 184/3 پر بہت زیا دہ تنقید رہی ہے، سب سے زیادہ بار باڈیز کی طرف سے 184/3 پر تنقید کی جاتی رہی ہے، وہ دور بھی دیکھا جب معمولی معمولی باتوں پر سوموٹو نوٹس لیے گئے، اپیل کا حق مجوزہ بل میں دینا ضروری سمجھا گیا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ گزشتہ روز ججز کے موقف نے تشویش کی لہر پیدا کردی، اندیشہ پیدا ہوا کہ فرد واحد کے اختیار سے اعلیٰ عدلیہ کو نقصان نہ پہنچے، بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس لینے کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 میں کہا گیا ہے عدالت عظمیٰ کے سامنے ہر معاملے یا اپیل کو ایک بینچ سنے گا جسے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا جائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے بل میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا، اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

Comments are closed.