برطانیہ میں ہر سال 17,000 افراد قولون کے شدید ورم کا شکار ہوتے ہیں

81

لندن:ایک چیرٹی Guts نے دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ میں ہرسال 17,000افراد قولون کے شدید ورم کا شکار ہوتے ہیں،چیریٹی کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوگی کیونکہ غلط تشخیص کے سبب مریضوں کی اصل تعداد معلوم نہیں ہوپاتی ،چیرٹی کا کہنا ہے کہ آگہی نہ ہونے کے سبب لوگ غیر ضروری طور پر تکلیف سے دوچار رہتے ہیں۔آنتوں میں دیگر سوجن کے برعکس قولون کی سوجن کیمرے میں نظر نہیں آتی۔

اس کیلئے ٹشو کاایک نمونہ لے کر مائیکرواسکوپ سے اس کامعائنہ کرناہوتاہے لیکن چونکہ یہ عمل ہمیشہ مکمل نہیں ہوتا اس لئے بہت سے لوگوں میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہوپاتی ، ماہرین کا بھی کہناہے کہ لوگ عام طورپر علامات ظاہر ہونے پر تشخیص نہیں کراتے کیونکہ انھیں خدشہ ہوتاہے کہ اگر وہ تشخیص کرائیں گے تو تشخیص غلط کی جائے گی اور انھیں مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا ۔چیرٹی کاکہناہے کہ اگر اس کی تشخیص کرلی جائے تو بیشتر افراد کا موثرعلاج ہوجاتاہے تاہم تشخیص کے عمل کو بہتر بنانے کیلئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ،قولون کی سوجن کی وجہ سے پانی جیسے پتلے دست ،پیٹ میں درد ،بیہوشی ،بار بارٹوائلٹ جانے کی ضرورت اور پیٹ کو خالی کرنے کیلئے رات کو ٹہلنے پر مجبور ہونا پڑتاہے ۔

چیرٹی کا کہناہے کہ سابقہ تخمینے کے مطابق برطانیہ میں اس وقت کم وبیش 67,000 افراد قولون کے درد کا شکار ہوں گے خیال کیا جاتاہے کہ خواتین اس کیفیت سے زیادہ دوچار ہوتی ہیں۔ Guts یوکے کی چیف ایگزیکٹو جولی ہیرنگٹن کا کہناہے اس تکلیف میں مبتلا بیشتر افراد کا علاج بآسانی مخصوص اسٹیرائیڈز یا علامات سے نجات دینے والی دواؤں سے کیا جاسکتاہے۔قولون کی سوجن کی شکایت میں اضافہ ہورہاہے او ر لوگوں کی عمرمیں اضافے کے ساتھ ہی اس میں مزید اضافہ ہوسکتاہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کی وجہ سےہونے والے نقصانات کو اجاگر کیاجائے اور ہیلتھ کیئر سے وابستہ عملے کو اس حوالے سے تربیت دی جائے اس ضمن میں آگاہی میں اضافہ کیا جائے اور اس مرض کی تشخیص اور علاج کے نظام اور طریقہ کار کو بہتر بنانے کیلئے ریسرچ کیلئے زیادہ رقم مختص کی جائے ۔

لیورپول یونیورسٹی کے پروفیسر کرس پرابرٹ کا کہناہے کہ قولون کی سوجن کی تشخیص نہ کی جائے تو مریض برسوں بلاوجہ تکلیف اٹھاتا رہتاہے ،ڈائریا کی علامات بہت شدید ہوتی ہیں اور اس سے آدمی گھرپر ہی مقید ہوکر رہ جاتا ہے جس سے مریض کو شدید تکلیف ہوتی ہے۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس مرض میں اضافہ کیوں ہورہاہے لیکن ہوسکتاہے کہ اس کاسبب اس مرض کی علامات کے بارے میں آگہی میں اضافہ اور تشخیص کا ماحول بہتر ہوجاناہو۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس کاموثر علاج ممکن اور دستیاب ہے اس لئے اس تکلیف سے دوچار لوگوں کو اپنے جی پی سے اس حوالے سے بات کرنا چاہئے۔

Comments are closed.