اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 45 برسوں میں تیز ترین شرح سے اضافہ

76

لندن:روٹی، اناج اور چاکلیٹ کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ مصارف زندگی گزشتہ ماہ توقع سے زیادہ بڑھ گئے۔ افراط زر جو قیمتوں میں اضافے کی شرح کو ماپتا ہے، فروری میں 10.4 فیصد سے کم ہو کر سال مارچ میں 10.1فیصد رہ گیا۔ بڑے پیمانے پر اس کے 10فیصد سے نیچے گرنے کی توقع تھی لیکن کھانے کی قیمتیں زیادہ بلند رہیں جو 45 برسوں میں اپنی تیز ترین شرح سے بڑھ رہی ہیں۔ گرتے ہوئے افراط زر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیمتیں گر رہی ہیں لیکن صرف یہ کہ قیمتوں میں اضافے کی شرح سست ہو رہی ہے۔

اعداد و شمار فراہم کرنے والے آفس فار نیشنل سٹیٹیسٹکس (او این ایس) کے چیف اکانومسٹ گرانٹ فٹزنر نے کہا کہ عالمی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں گر رہی ہیں لیکن اس کی وجہ سے ہمارے ہاں ابھی تک قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی۔ بی بی سی ریڈیو 4 کے پروگرام ٹوڈے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کھانے پینے کی قیمتوں میں کچھ مستحکم اضافہ ہوا ہے اور آپ توقع کریں گے کہ سپر مارکیٹس میں اس کی عکاسی ہوتی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ہم خوراک کی قیمتوں کے اسی طرح برقرار رہنے کے ساتھ کم از کم ایک اور مہینے تک دہرے ہندسے کا افراط زر دیکھ سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ یقینی طور پر امکان کے دائرے میں ہے لیکن ہم اس کی پیش گوئی نہیں کرتے۔ چانسلر جیریمی ہنٹ نے کہا کہ انہیں اب بھی یقین ہے کہ سال کے آخر تک افراط زر میں تیزی سے کمی آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایک منصوبہ ہے اور ہم خاندانوں پر اس دباؤ کو کم کرنے جا رہے ہیں تو یہ بالکل ضروری ہے کہ ہم اس منصوبے پر قائم رہی۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ اس سال افراط زر کو نصف کر دیں جیسا کہ وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے لیکن لیبر شیڈو چانسلر ریچل ریوز کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ٹوریز کے تحت ہماری معیشت کمزور ہے۔ قیمتیں قابو سے باہر ہیں اور لوگوں نے کبھی بھی اتنی زیادہ رقم ادا نہیں کی کہ اس کے بدلے میں انہیں بہت کم کم ملے۔ برطانیہ میں افراط زر کی شرح امریکہ، جرمنی، فرانس اور اٹلی سمیت دیگر مغربی ملکوں سے زیادہ ہے۔ یوکرین میں جنگ کے باعث اناج اور ویجیٹیبل آئل کی قیمتوں میں اضافے نے فوڈ پرائسز کو بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔ ٹرانسپورٹ اور پیکیجنگ کے بڑھتے ہوئے اخراجات بھی درآمدات کو مہنگا کر رہے ہیں۔

مارچ میں سب سے زیادہ اضافہ زیتون کے تیل (49 فیصد) دودھ (38 فیصد) اور تیار کھانے (21 فیصد تک) سمیت دیگر مصنوعات میں دیکھا گیا۔ جہاں خوراک کی قیمتیں خاصی بلند رہیں، پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں، جس سے گاڑی چلانے والوں کو کچھ راحت ملی ہے، نالیڈ پٹرول کی قیمتیں جولائی میں تقریباً 190 پونڈ پر پہنچ گئیں اور مارچ میں 1.50 پرنڈ سے نیچے آگئیں۔ ملک ڈلیوی سروس دی ماڈرن ملک مین کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو سائمن میلن نے کہا کہ فوڈ انڈسٹری کو حالیہ مہینوں میں بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا کرنا پڑا ہے، دودھ، انڈے اور پیکیجنگ کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں مستحکم ہونا شروع ہو جائیں گی لیکن وہ گزشتہ سال کے مقابلے اس مرتبہ بہت زیادہ رہیں گی۔ انہوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے واقعی یقین نہیں ہے کہ کیا کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں اتنی ہی گر جائیں گی، جس کی ہر ایک کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں فوڈ پرائسز میں کچھ کمی کی توقع کرتا ہوں لیکن میں ذاتی طور پر اگلے بارہ مہینوں میں بڑی کمی کی توقع نہیں کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ قیمتیں صارفین پر نہ ڈالیں لیکن انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک توازن تھا، جس پر کاروبار کو چلنا ہے۔

Comments are closed.