بولٹن:بولٹن میں 4مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کیلئے امیدواروں کی سرگرمیاں مہم کے آخری دن بھی جاری ر ہی۔ شہر کے تمام علاقوں میں کارنر میٹنگز کے ذریعے پروگرام کی تشہیر کا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ بولٹن ٹاؤن 20وارڈ میں تقسیم ہے اور ایک وارڈ میں تین کونسلر منتخب کئے جاتے ہیں اسی طرح بولٹن کونسل میں منتخب نمائندوں کی تعداد ساٹھ ہوتی ہے۔ لیبر پارٹی گزشتہ 40سال سے زائد اقتدارمیں رہ چکی ہے جبکہ 2019کے الیکشن میں ٹوری پارٹی نے کونسل میں اقتدار سنبھالا تھا۔
تاہم آئندہ 4 مئی کوہونے والے انتخابات کے بعد کونسل میں اقتدار کس پارٹی کے پاس ہوگا اس کا فیصلہ آنے والے الیکشن میں ہوگا۔ بلدیاتی امیدوار اپناپیغام مسجدوںمندروں اورچرچوں تک پہنچانے کے علاوہ دن کا بیشتر حصہ لوگوںسے ملنے ملانے میں گزارتے ہیں۔ ٹوری پارٹی نے اپنی وارڈ میں انتخابی دفتر بھی قائم کر رکھا ہے جہاں دن بھر ان کے ووٹروں سپورٹروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن انتخابات کی زیادہ سرگرمیاں ان علاقوں میں دیکھنے میں آرہی ہیں جہاں ایشیائی امیدوار لنگوٹ کس کر انتخابی دنگل میں اتر چکے ہیں۔
بولٹن کی تمام وارڈز میں دیگر ایشیائی امیدواروں کے علاوہ 12پاکستانی امیدوار بھی برطانیہ کی سیاسی تاریخ کا حصہ بننے کیلئے اس دوڑ میں شامل ہیں اور سب سے دلچسپ اور کانٹے دار مقابلہ گریٹ لیور وارڈ میں ہوگا جہاں ایک سفید فام خاتون میڈلین مرائے چوتھی مرتبہ اپنی نشست کا دفاع کریں گی اور اس طرح اسی وارڈ میں تین پاکستانی امیدوار بھی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
علاوہ ازیں پوسٹل ووٹ کوحاصل کرنے کیلئے سیاسی دوئ پیچ کھیلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہالیول اوررم ورتھ وارڈ میں بھی گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ رم ورتھ وارڈ میں دو ایشیائی امیدوار خاتون امیدوار شمیم عبداللہ اور حافظ طاہر بٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر سفید فام اکثریت کا دو فیصد ووٹ انہیں مل گیا تو وہ ایشیائی ووٹوں کی مدد سے اس حلقے میں کامیابی حاصل کر لیں گے۔ انتخابات میں لیبر پارٹی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ وہ اپنے اقتدارکو نہ صرف حاصل کرے گی بلکہ اکثریت حاصل کرکے اقتدارکی کرسی پربراجمان ہوگی۔
ادھر ٹوری پارٹی نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس بار بھی کونسل میں اپنا کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگی بلکہ 4مئی کا سورج ان کے اقتدار کی نوید لے کرطلوع ہوگاتاہم تینوں بڑی پارٹیوں کے امیدوار اپنے ووٹروں تک پہنچنے کیلئے آخری کوششیں کررہے ہیں۔ اب کمیونٹی کو دیکھنا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کس امیدوار کیلئے کرے گی اس بات کافیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
Comments are closed.