لندن :برطانیہ میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق کینٹ اور سسیکس میں نرسوں پر جسمانی حملوں میں 47فیصد کا ہوش ربا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے ان حملوں میں ان پر تھوکنا، جسمانی حملے حتیٰ کہ گھونسے تک مارنا شامل ہیں۔ بی بی سی کی دیکھی گئی رپورٹ کے مطابق ان علاقوں میں نرسوں کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات 20218میں ایک ہزار 159تھے جبکہ 2022میں یہ بڑھ کر 1714ہوگئی۔
رائل کالج آف نرسز نے اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نرسوں پر مریضوں کی جانب سے تھوکنے، ان پر حملوں اور مکے مارنے سے خاندانوں کو ایک نرس کی حقیقی زندگی کے بارے میں زیادہ بہتر اندازہ ہوسکے گا۔ حکومت نے کہا ہے کہ ہم نے ایمرجنسی عملے سمیت طبی عملے پر حملوں پر سزاؤں کو بڑھایا ہے۔
رائل کالج آف نرسنگ میں چیف نرس پروفیسر نکولا رینجر نے کہا ہے کہ مریض اور ان کے اہلخانہ اس حوالے سے خوفزدہ ہیں کہ انہیں مطلوب طبی سہولت کہاں ملے گی اور جب اس حوالے سے ان کی بے چینی بڑھتی ہے تو کچھ مریض جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، جائے کار پر کسی کو بھی حملوں کے خدشات میں مبتلا نہیں ہونا چاہے اور وزراء کو نرسوں سے روا رکھے جانے والے اس تحقیر آمیز رویہ کے سدباب کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا چاہئیں، ورنہ ہماری صحت اور دیکھ بھال سروسز کو نرسنگ عملے کی جانب سے ملازمتیں چھوڑنے پر بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جائے کار پر نشانہ بنائی گئی ایک نرس ہنا (اصل نام نہیں) نے کہا کہ مریض اس عملے کو نشانہ بناتے ہیں جو دراصل ان کی مدد کیلئے کوشاں ہوتے ہیں، کوویڈ وبا کے بعد مریضوں اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے پرتشدد رویوں میں اضافہ ہوا ہے، اس طرز عمل کو بدلنے کی فوری ضرورت ہے۔
Comments are closed.