لندن: سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2023کی آخری سہ ماہی کے دوران برطانیہ کی معیشت کساد بازاری کا شکار ہوگئی تھی، معیشت توقع سے زیادہ سکڑ گئی تھی۔ اکتوبر سے دسمبر کے دوران جی ڈی پی میں 0.3فی صد کی کمی ہوئی۔ یہ اعدادوشمار رشی سوناک کیلئے ایک بڑا دھچکہ ہیں کیونکہ گزشتہ سال جنوری میں 2023 میں رشی سوناک کی جانب سے کئے گئے 5 وعدوں میں معیشت کی ترقی رشی سوناک کا ا یک وعدہ تھا۔
شیڈو چانسلر راکیل ریوز نے کہا ہے کہ ان اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رشی سوناک نے معیشت کی بہتری کا جو وعدہ کیا تھا، اس میں وہ ناکام رہے ہیں۔ حکومت جی ڈی پی کی ترقی اپنی بہتر کارکردگی کے ثبوت طورپر پیش کرسکتی تھی لیکن حکومت کی کارکردگی بہت بری رہی ہے۔ اگر جی ڈی پی تیزی سے بڑھتی رہے تو لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت کے پاس زیادہ رقم آتی ہے، جو وہ عوام کی خدمت کے کاموں پر خرچ کرسکتی ہے، اس کے علاوہ حکومت اس بات پر بھی نظر رکھتی ہے کہ وہ معیشت کی صورت حال دیکھ کر کتنا قرض لے رہی ہے۔
ٹریژری کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چانسلر 6 مارچ کو اعلان کئے جانے والے بجٹ میں کٹوتی دینے کیلئے سرکاری اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ حالیہ ہفتوں کے دوران کی جانے والی پیش گوئیوں میں کہا گیا ہے کہ ملک کی معیشت زوال پزیر ہے کیونکہ حکومت کے قرضے بڑھ چکے ہیں اور سود کا بوجھ بڑھ چکا ہے، ابھی تک اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ جی ڈی پی پر تبصرہ کرتے ہوئے جیریمی ہنٹ نے کہا کہ اگرچہ سود کی شرح زیادہ ہے تاکہ بینک آف انگلینڈ افراط زر کو کم کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس لئے جی ڈی پی میں کمی غیر متوقع نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ا س بات کے اشارے ہیں کہ برطانوی معیشت پلٹا کھا رہی ہے لیکن ریوز کا کہنا ہے کہ یہ رشی سوناک کی کساد بازاری ہے اور یہ خبر برطانیہ کی ہر فیملی کیلئے انتہائی تشویش ناک ہے۔ قومی شماریات دفتر سے ملنے والے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے دوران ہر اہم شعبے میں سست روی کا شکار رہی۔ اس کا تعین معیشت کی صورت حال اور تعمراتی اور مینوفیکچرنگ کے شعبے سے ہوتا ہے۔ گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کے دوران 0.1 فی صد سے بھی بدتر رہی۔
کیپٹل اکنامکس کے ڈپٹی چیف اکنامسٹ رتھ گریگری کا کہنا ہے کہ اقتصادیات کے تازہ ترین اعدادوشمار سے بینک آف انگلینڈ کو، جو سود کی شرح کم کرنے پر غورکررہا تھا، دھچکہ لگے گا۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ افراط زر، جس سے قیمتوں میں اضافے کا اندازہ لگایا جاتا ہے، جنوری میں بھی4 فیصد ہے۔ بینک آف انگلینڈ افراط زر کو روکنے کیلئے سود کی شرح کو ختم کررہا تھا لیکن گزشتہ سال اگست سے اس کی شرح 5.25 رہی ہے۔ مجموعی طورپر معیشت میں ترقی کی شرح 0.1 فیصد تھی جبکہ معیشت میں یہ سکڑاؤ گزشتہ سال کی مسلسل 2 سہ ماہیوں کے دوران ہوتا رہا ہے۔
Comments are closed.