بچوں کو طمانچے نہ ماریں، انگلینڈ اور آئرلینڈ کے ڈاکٹروں کا مشورہ

70

لندن:انگلینڈ اور آئر لینڈ کے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ بچوں کو طمانچے نہ ماریں ڈاکٹروں کا کہناہے کہ بچوں کو زدوکوب سے بچانے کا موجودہ قانون خطرناک حد تک مبہم اورغیر منصفانہ ہے ،رپورٹ میں کہاگیاہے کہ گھروں میں مار کھانے والے بچوں پر طویل عرصے تک دماغی اور جسمانی اثرات برداشت کرنا پڑتے ہیں ،اسکاٹ لینڈ اور ویلز کے علاوہ پوری دنیا کے بہت سے ممالک میں بچوں کو مارنا قانوناً جرم ہے ،حکومت کا کہناہے کہ بچوں میں نظم وضبط رکھنے کیلئے والدین بااعتبار ہیں ۔

محکمہ تعلیم کے ایک ترجمان کا کہناہے کہ بچوں پر کسی طرح کا تشدد قطعی ناقابل قبول ہے اور ہم نے اس کی روک تھام کیلئے سخت قوانین بنائے ہیں۔لیکن بچوں کی صحت کے ماہرین کا کہناہے کہ بچوں کو بھی بڑوں کی طرح تحفظ حاصل ہونا چاہئے پیڈیاٹرکس اور چائلڈ ہیلتھ کے رائل کالج(RCPCH)کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ انگلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کو بچوں کو جسمانی سزائیں دینے کو خلاف قانون قرار دیاجانا چاہئے ۔فی الوقت انگلینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں کسی بچے کو طمانچے یا تھپڑ مارنے پر والدین یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ یہ مناسب سزا ہے اور قانون شکنی سے بچ جاتے ہیں۔

چلڈرن ایکٹ2004کے تحت بچوں کو اس طرح مارنا غیر قانونی ہے جس سے اس کے جسم کو کوئی شدیدگزند پہنچے۔ RCPCH کی اسٹڈی سے ظاہرہوتاہے کہ بچوں طمانچہ مارنا بچوں کے رویئے ،صحت اور تندرستی کیلئے نقصاندہ ہے ان کا کہناہے کہ جن بچوں کو جسمانی سزائیں دی جاتی ہیں وہ دوسرے بچوں کی نسبت تین گنا زیادہ خراب مینٹل ہیلتھ کا شکار ہوسکتے ہیں ،بچوں کو مارنے سے فیملی کے تعلقات بھی متاثر ہوسکتے ہیں اور بچے زندگی میں آگے جاکر جارحانہ روش اختیار کر سکتاہے۔پروفیسر رالینڈ کا کہناہے کہ انھیں با قاعدگی سے اس چیلنجنگ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔

انھوں نے کہا کہ قانون کے تحت بعض طرح کی سزائیں قانونی ہیں اور بعض طرح کی غیر قانونی اس سے ایک ابہام پیدا ہوتاہے جبکہ بچوں کے تحفظ کے معاملے میں کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے ،انگلینڈ اور شمالی آئر لینڈ میں قانون میں تبدیلی سے بات واضح ہوجائے گی اور بچوں کی کسی طرح کے پٹائی بھی ناقابل قبول قرار پائے گی۔ اسکاٹ لینڈ میں 2020 میں اور شمالی آئر لینڈ میں2022 میں بچوں کو جسمانی سزائیں دینے کو قانونا ًجرم قرار دیاگیا تاہم ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد بچوں کو جسمانی سزائیں دینے کے واقعات میں کتنی کمی ہوئی ، لیکن جرمنی ،رومانیہ اور سوئیڈن میں بچوں کو جسمانی سزائیں دینے پر پابندی کے اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔

دنیا میں 60 سے زیادہ ایسے ممالک ہیں جہاں بچوں کو جسمانی سزائیں دینے پر پابندی ہے اب ماہرین کا کہناہے کہ وہ برطانیہ کے بچوں کیلئے بھی اسی طرح تحفظ کے خواہاں ہیں ماہرین نے تمام سیاسی پارٹیوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے انتخابی منشور میں اسے شامل کریں۔NSPCC کی ایسوسی ایٹ پالیسی سربراہ جونا باریٹ کا کہناہے کہ تمام بچوں کو اسی طرح کے تحفظ کا حق حاصل ہے جو بالغوں کو حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم سیاسی رہنماؤں کو اپنے منشور میں اسے شامل کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں۔

برطانوی حکومت کا کہناہے کہ انگلینڈ میں بچوں کو جسمانی سزائیں دینے کے قانون میں تبدیلی کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور حکومت اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں اس طرح کی پابندی کے اثرات کا جائزہ لے گی ،حکومت نے کہا ہے کہ ہم زیادتی یا چشم پوشی کے واقعات بلاتاخیر علم میں لانے کے حوالے سے اساتذہ، سوشل ورکرز اور تحفظ فراہم کرنے والے تمام پروفیشنلز کو سپورٹ کرتے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ترجمان کا کہناہے کہ انگلینڈ میں بچوں کے تحفظ سے متعلق ہمارافریم ورک بالکل واضح ہے کہ اداروں کو بچوں کو محفوظ رکھنا ہے۔

Comments are closed.