لندن:کراس چینل مائیگریشن کی روک تھام کیلئے جرمنی کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائی کے منصوبے کے تحت دونوں ملکوں کی حکومتیں شمالی فرانس کی طرف جانے والی کشتیوں کو روک سکیں گی۔ جرمنی کے چانسلر اولاف شولز اور برطانیہ کے وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ یوکرین کو ان کی جانب سے دیئے گئے اسلحہ کے استعمال کے حوالے سے کوئی نئی شرط عائد کرنے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے یا اولاف شولز نے یوکرین کو دیئے گئے اسلحہ کو روس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بارے میں پابندیاں اٹھانے سے متعلق بات چیت کی ہے تو سر کیئر اسٹارمر نے کہا کہ ہم یوکرین کو جرمنی سمیت دیگر اتحادیوں کے کہنے پر اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ ہم سابقہ حکومت کے ہی فیصلوں اور طریقہ کار پر عمل کررہے ہیں، اس لئے میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ کوئی نیا اور اس سے مختلف فیصلہ نہیں کیا گیا ہے، میں اس اسلحہ کے استعمال کے بارے میں کسی معاملے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے بھی کہا کہ جرمنی نے بھی اس معاملے میں کوئی نیا فیصلہ نہیں کیا ہے اور ہمارا ملک یعنی جرمنی یوکرین کی حمایت جاری رکھے گا۔
انھوں نے کہا کہ جرمنی پورے یورپ میں یوکرین کا سب سے بڑا حمایتی ہے اور ہم نے اسے سب سے زیادہ امداد دی ہے اور ہم یہ امداد جاری رکھیں گے، جہاں تک اسلحہ کی فراہمی کا تعلق ہے تو جرمنی نے اس حوالے سے کوئی نیا فیصلہ نہیں کیا۔ وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر ان دنوں دو روزہ دورے پر جرمنی میں ہیں، اس کے بعد وہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ وہ یورپ کے ساتھ وسیع ترتعلقات استوار کرنے کے حوالے سے ایک سمجھوتے کیلئے جرمنی گئے ہیں۔ اس سمجھوتے میں ایک نیا دفاعی سمجھوتہ بھی شامل ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ یہ ایسا سمجھوتہ ہوگا، جس سے ہمارے پہلے سے موجود دفاعی تعاون کو مزید فروغ ملے گا لیکن دنیا میں اضطراب کی موجودہ صورت حال میں کسی خطرے کی صورت میں یہ سمجھوتہ مزید وسعت اختیارکرلے گا۔ جس کے واضح معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے عوام اور یورپ کے وسیع تر تحفظ اور سلامتی کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوں گے، جس کا آغاز ہماری جانب سے یوکرین کی غیرمتزلزل حمایت سے ہوچکا ہے اور ہم نے اس کی کچھ تفصیلات پر غور کیا ہے، اس طرح ہم نے یوکرین کے ساتھ کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کراس چینل مائیگریشن کی روک تھام کیلئے جرمنی کے ساتھ مل کر مشترکہ کارروائی کے منصوبے کا بھی ذکر کیا، جس کے تحت دونوں ملکوں کی حکومتیں شمالی فرانس کی طرف جانے والی کشتیوں کو روک سکیں گی۔
برلن میں جرمن چانسلر کے ساتھ ملاقات کے بعد وزیراعظم اسٹارمر نے کہا کہ ایکشن پلان کی تیاری سے دونوں ملکوں کو ڈیٹا اورانٹیلی جنس معلومات کے تبادلوں میں مدد ملے گی، جس سے شمالی سمندر کے دونوں کناروں پر مشترکہ بنیاد پر کارروائی کی جاسکے گی۔ اپنی تقریر میں انھوں نے سوشل چیلنجز، جن میں غیر قانونی مائیگریشن شامل ہے، کے حوالے سے تعاون بڑھانے کی بات کی۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بغیر ہم اس قبیح فعل میں مصروف اسمگلروں کے گروہوں کا خاتمہ نہیں کرسکتے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہم نے اسمگلروں کے گروہوں سے نمٹنے اور ان کا قلع قمع کرنے کیلئے مشترکہ کارروائی کے حوالے سے تفصیلی بات کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ تارکین کو واپس کرنے کے حوالے سے جرمنی سےکوئی بات نہیں ہوئی ہے لیکن مشترکہ کارروائی کی بات ہوئی ہے اور مجھے خوشی ہے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تارکین کو فرانس لانے والی بہت سی کشتیاں جرمنی سے گزرتی ہیں، اس لئے اسے کوئی دور ازکار کارروائی کا منصوبہ نہیں کہہ سکتے، یہ ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ ہم انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث لوگوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ پورے یورپ سے گزرتے ہیں، اس لئے مشترکہ کارروائی کے بغیر ان کا خاتمہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
وزیراعظم اسٹارمر نے سابق حکومت کی جانب سے پناہ کیلئے آنے والوں کو کیغالی بھیجنے کی پالیسی کو ایک مذاق قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی سرحدوں پر اپنا کنٹرول بڑھا دیں، مجھے یقین ہے کہ انسانون کی اسمگلنگ میں مصروف گروہوں کو ختم کرنے کا انتہائی موثر طریقہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے اور یہ کام ہمارے بنیادی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کو چھیڑے بغیر بھی ممکن ہے۔ ہوم آفس کے ڈیٹا کےمطابق منگل کو بھی انگلش چینل عبور کر کے 500 افراد برطانیہ پہنچے، جس کے بعد رواں سال غیر قانونی طورپر برطانیہ پہنچنے والوں کی مجموعی تعداد 19,820 ہوگئی ہے جبکہ گزشتہ سال اس عرصے کے دوران برطانیہ پہنچنے والے غیر قانونی تارکین کی تعداد 19,801 تھی۔
Comments are closed.