لندن:برطانوی سفارتخانے کے سیکورٹی گارڈ کا حکومت پر دھوکہ دینے کا الزام، افغانستان میں ایک عشرے سے زیادہ تک سیکورٹی گارڈ کے فرائض انجام دینے والے شخص کا کہنا ہے کہ اس کے بچوں کو طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ وزرا سے اپنے بچوں کو برطانیہ بلوانے کی بھیک مانگتا رہا لیکن کسی نے اس کی داد رسی نہیں کی۔ اس کا کہنا ہے کہ اب میں محسوس کرتا ہوں کہ برطانوی حکومت کی حمایت کر کے میں نے غلطی کی تھی، میرے اس عمل کی وجہ سے آج میرے بچوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
اس نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ رات کو سوتے وقت خیال آتا ہے کہ میرے بچے نہ معلوم کس حال میں ہوں گے، میں سو نہیں پاتا۔ اس نے بتایا کہ میں نے برطانوی حکومت سے درخواست کی کہ میرے بچوں کو بھی برطانیہ لایا جائے تاکہ وہ میرے ساتھ رہ سکیں اور اگر حکومت ایسا نہیں کرسکتی تو مجھے بھی طالبان کے حوالے کر دے۔ اس نے بتایا کہ اگست2021میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تھا تو برطانوی حکومت نے مجھے اور میری بیوی بچوں کو افغانستان سے نکالنے کیلئے بلایا تھا لیکن کابل میں بم دھماکے کی وجہ سے فلائٹ نکل گئی اور ہمیں نکالنے کے بجائے انھوں نے ہمارے ڈاکومنٹس افغان شہریوں کی ری سٹلمنٹ اسکیم کے تحت بھیج دیئے۔
اس اسکیم کے تحت اس کی بیوی اور چھوٹے بچوں کی منظوری مل گئی لیکن دو بڑے بچوں کی ان کی عمروں کی وجہ سے منظوری نہیں مل سکی۔ مائیگرنٹ سپورٹ چیرٹی کی امیگریشن ایڈوائزر Indre Lechtimiakyte -Abercrombie کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے پہلی مرتبہ افغانستان سے درخواست دی تو ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے برطانوی حکومت کیلئے کام کیا، انھیں ACRS کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ سیکورٹی گارڈ نے بتایا کہ میں نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا سوچا تھا لیکن میرے بڑے بچوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کی جان خطرے میں ہے، آپ چلے جائیں۔ ہم بعد میں آجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ میں اپنے بچوں سے کبھی الگ نہیں رہا لیکن اب میں ان کو دیکھنے کو ترس رہا ہوں، میرے بچے جب بھی فون کرتے ہیں، یہی کہتے کہ بابا ہماری جان بچاؤ، جتنی جلد ممکن ہو، ہمیں یہاں سے نکالو۔ میں مسلسل کوشش کررہا ہوں، اس کیلئے بہت سے دروازے کھٹکھٹا چکا ہوں۔ برطانوی حکومت میرے مسئلے کو میرے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کرے لیکن اب تک مجھے کوئی امید نہیں دلائی۔ انھوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ برطانیہ پہنچنے کے انتظار میں پاکستان چلے گئے ہیں اور وہ وہاں سے برطانیہ پہنچنے کی اجازت کے منتظر ہیں۔
اس نے بتایا کہ ہم اپنے کھانے کے اخراجات کم کر کے رقم بچاکر اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں، جو وہاں روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔Abercrombie کا کہنا ہے کہ فیملی کو انتہائی مہنگے ویزا کا طریقہ کار اختیار کرنا پڑ رہا ہے، جس کی پروسیسنگ میں ایک سال سے زیادہ لگ جاتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ والدین اور بچوں کے رشتے کو تسلیم کرلیا جائے اور جتنا زیادہ وقت گزر رہا ہے۔
اس بات کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے کہ لڑکا قتل کردیا جائے گا اور لڑکی کسی طالبان کی بیوی بن جائے گی۔ Abercrombie نے وزیر داخلہ یووٹ کوپر سے اپیل کی ہے کہ وہ خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بچوں کو برطانیہ آنے کی اجازت دیدیں یا پھر ACRS کی درخواستوں کی پراسیسنگ کے قانون میں ترمیم کردیں۔ ہوم آفس کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ ہماری دیرینہ پالیسی ہے کہ ہم انفرادی معاملات پر تبصرہ نہیں کرتے۔
Comments are closed.