اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں جو ظلم و بربریت مچایا وہ کبھی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھا، جس انداز سے معصوم شہریوں کو قتل کیا جارہا ہے اُس پر عالمی قوتیں بھی خاموش ہیں، فلسطین پر آواز اٹھانے کیلیے ماہرین کا ایک گروپ بنا کر دنیا کے اہم ممالک میں بھیجیں گے۔
وزیراعظم نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے آغاز میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر صدر مملکت جبکہ شرکت پر تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کا شرکت پر بھی شکریہ ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی اندرونی اور بیرونی چیلنج کا سامنا ہوا تو ساری سیاسی اور مذہبی قیادت اکھٹی ہوئی اور ٹھوس تجاویز پیش کر کے عملی جامہ پہنانے کیلیے بھرپور تعاون کیا، آج کا دن بھی اُس کی روشن مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں ہونے والی تقاریر میں عقل و دانش اور جذبات شامل ہیں، میں نے سب کی باتوں کو غور سے سُنا، یہ اجتماعی سوچ اور فکر میرے اور ہم سب کیلیے بہت حوصلہ افزا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہاں پر بہت اہم باتیں ہوئیں، بالخصوص فلسطین کے حوالے سے عالمی دنیا کے کردار اور عالم اسلام کو آگے بڑھ کر مدد کا تذکرہ کیا گیا، اسی کے ساتھ قائد اعظم کے فرمان یا 1940 میں قرارداد پاکستان کی باتوں کی تائید نہیں کرنی چاہیے بلکہ فلسطین کی آزاد ریاست کی بات کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آج اجلاس کے بعد جو قرارداد متفقہ طور پر پیش کی جائے تو میری خواہش ہے کہ اُس میں فلسطین کی آزادی اور القدس شریف دارالخلافہ ہونا چاہیے، چاہے نگراں حکومت تھی یا آج کی مخلوط حکومت، کوئی بھی پاکستانی بدترین ظلم و ستم اور خونریزی جسے کسی انسانی آنکھ نے دیکھا نہ سُنا، بچے، مائیں شہید ہوئیں اور شہروں کے شہر تباہ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر میں بھی یہی صورت حال ہے اور وہاں کی وادی بھی کشمیریوں کے لہو سے سرخ ہوچکی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کا خون سستا ہے؟ آج عالمی ضمیر کو 42 ہزار شہادتوں کے بعد جاگنا چاہیے ، آج وقت آگیا ہے کہ تمام قوتیں جمع ہوکر اس خونریزی کو بند کروائیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین میں ہونے والی خونریزی کو بند کروانا ہماری اولین ترجیح ہے، اس کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کا پلیٹ فارم ہے، آج ہی ماہرین کا ایک گروپ بنائیں گے جو سیر سپاٹے کیلیے نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین کو دنیا کے اہم درالخلافوں میں جاکر پاکستان اور عالم اسلام کا پیغام پہنچائیں گے۔
Comments are closed.