اسکولوں میں سیاہ فام بچوں کی نگرانی زیادہ کی جاتی ہے، کمیشن آف ینگ لائیوز

390

لندن:اسکولوں میں سیاہ فام بچے گھاٹے میں ہیں کیونکہ انہیں معصوم کم اور بالغ جیسا زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ یہ انکشاف ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ کمیشن آف ینگ لائیوز ان انگلینڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایڈلٹی فکیشن کے اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ سیاہ فام بچے محسوس کرتے ہیں کہ ان کی اسکولوں میں زیادہ نگرانی کی جاتی ہے۔ یہ بہت سارے بچوں کو غیر محفوظ ہونے کا احساس دلاتی ہے، جس کا ان کی زندگی پر بھاری منفی اثر ہوتا ہے، حکومت نے کہا ہے کہ اس نے اسکولوں کے لیے سیف گارڈنگ گائیڈنس کو مضبوط بنایا ہے اور اس میں اسٹاف کے لیے باقاعدگی سے تربیت شامل ہے، سابق چلڈرنز کمشنر این لانگ فیلڈ نے جنہوں نے کمیشن کی صدارت کی کہا ہے کہ ایڈلٹی فیکشن ایک نمایاں ایشو ہے۔

یہ بے حد حقیقی ایشو ہے جس کے بچوں کی زندگی پر بڑے اثرات ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کو بڑوں کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کی انتہائی کم دیکھ بھال کرتے ہیں اور انہیں وہ تحفظات حاصل نہیں جو ہونے چاہئیں، ایک سالہ خودمختار اسٹڈی کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ لاچار بچوں کو اسکولوں یا جرائم پیشہ گروہوں کے استحصال سے بچانے کے لیے سپورٹ اور مواقع کو کس طرح بہتر بنایا جائے۔ اسٹیٹ اسکولوں میں ہر تین طلبا میں ایک کا تعلق نسلی اقلیت سے ہے۔ تاہم90فیصد سے زائد تدریسی عملہ سفید فام ہے۔

رپورٹ کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ بہتر نسل برابری کی ٹیچر ٹریننگ، نسلی امتیاز سے نمٹنے کے لیے زیادہ وسیع نصاب اور کلاس رومز اور لیڈر شپ رولز میں زیادہ سیاہ فام ٹیچرز ہونے چاہئیں۔ رپورٹ میں میٹ پولیس افسروں کی جانب سے چائلڈ کیو کے طور پر پہچان رکھنے والی15سالہ لڑکی برہنہ تلاشی کو ایڈلٹی فیکشن کی دل ہلا دینے والی مثال کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس قسم کا سلوک اسکولوں اور پولیس پر سیاہ فاموں کے اعتماد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن کمپنی لسن اپ کی ڈائریکٹر جہنائن ڈیوس نے کہا ہے کہ سیاہ فام بچے اس قسم کا امتیاز کا سامنا کرنے کے زیادہ بڑے خطرے کا شکار ہیں، اس کی وجہ سیاہ فام بچوں کے جارح، گستاخ ہونے کے غلط نظریات ہیں، لندن میں ایک گرفتاری کے بعد گزشتہ تین سال دوران سفید فاموں کے مقابلے میں نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کی پولیس کی جانب سے برہنہ تلاشی کے امکانات تین گنا ہیں۔ یہ انکشاف بی بی سی نیوز کے میٹ پولیس کے ڈیٹا کے تجزیے سے ہوا ہے۔ میٹ پولیس نے کہا ہے کہ وہ بچوں کی برہنہ تلاشی کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کررہی ہے۔

نظرثانی چائلڈ کیو کے کیس کی روشنی میں کی جارہی ہے۔ ڈیپارٹمنٹ فار ایجوکیشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم اس بارے میں غور کررہے ہیں کہ بچوں کو محفوظ ہونے کا احساس دلانے کے لیے ہم مزید کیا اقدامات کرسکتے ہیں۔ ہم نے اپنی سیف گارڈنگ گائیڈنس کو مضبوط بنایا ہے اور اسے تمام اسکولوں اور پوسٹ میٹنگز تک توسیع دی ہے، حساس معاملات سے نمٹنے کے لیے اسٹاف کو اپنا اعتماد بڑھانے کے لیے ریگولر سیف گارڈنگ ٹریننگ حاصل کرنا ہوگی۔

Comments are closed.