تارکین وطن کوغیر قانونی برطانیہ پہنچانے والے گینگز کیخلاف آپریشن ، درجنوں گرفتار

135

لندن: فرانس سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے تارکین وطن کی جانیں خطرے میں ڈال کر انہیں برطانیہ پہنچانےوالے گینگز کے خلاف انٹرنیشنل پولیس آپریشن کے دوران درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا، منگل کے روزانسانی اسمگلرز کی گرفتاری کیلئے برطانیہ جرمنی، فرانس اور ہالینڈ میں یوروپول نے یورپین یونین کریمنل جسٹس کی کوآپریٹنگ ایجنسی یوروجیٹ کے ساتھ ملکر چھاپے مارے، برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ’’آپریشن پنجم‘‘ Punjum یورپ میں ’’آپریشن تھورن‘‘ کے ساتھ مل کر منظم جرائم پیشہ گروہوں کو نشانہ بنایا، ان گروہوں کے بارے میں شبہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ 12 سے 18 ماہ میں دس ہزار سے زائد تارکین وطن کو سمندر کے راستے برطانیہ پہنچایا، چھاپوں کے دوران 40 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، سینکڑوں لائف جیکٹس اور 50 چھوٹی کشتیاں بھی برآمد کی گئیں۔

نیشنل کرائم ایجنسی نے لندن میں 26 سالہ شخص کو کیٹ فورڈ کے علاقے رشی گرین سے 22 سالہ شخص کو آئل آف ڈاگز کے علاقے سینٹ ڈیوڈ اسکوائر سے غیر قانونی امیگریشن کی سہولت فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ نیشنل کرائم ایجنسی کے ڈائریکٹرآف تھریٹ لیڈرشپ کرس فریمنڈز کا کہنا ہے کہ ان گرفتاریوں کو ’’آپریشن سے براہ راست تعلق‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ چار مزید گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں، دو کو غیر قانونی تارکین وطن کو امیگریشن حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ دو کو منشیات رکھنے کے جرم میں حراست میں لیا گیا ہے۔

نیشنل کرائم ایجنسی نے ان چھاپوں کو ایک بڑی بین الاقوامی کارروائی کے طور پر ظاہر کیا ہے۔ جس کا مقصد ان افراد کو نشانہ بنانا تھا جو تارکین وطن کی اسمگلنگ کیلئے چھوٹی کشتیوں کو استعمال کرتے ہیں، جرمنی میں 900 سے زائد پولیس افسران نے 36 مقامات پرچھاپے مار کر 18 افراد کو حراست میں لیا۔ مسٹرفریمنڈز نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ آپریشن خفیہ معلومات ملنے کے بعد شروع کیا گیا تھا، اور ہمارے فراہم کردہ شواہد کے سبب مختلف ممالک میں بھی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں، الفرڈ سے 29 سالہ ایران رحیم پور کو چھوٹی کشتیوں کے ذریعے انسانی اسمگلنگ میں نمایاں کردار ادا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اسے بلجیم بدرکرنے کیلئے کارروائی کی جارہی ہے۔

مسٹر فریمنڈز نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ انسانی اسمگلرز سمندر پار کرانے کا معاوضہ اڑھائی سے ساڑھے تین ہزاریورو تک وصول کرتے ہیں۔ اور جو لوگ پورے یورپ سے گزر کر یہاں تک پہنچتے ہیں ان سے زیادہ معاوضہ لیا جاتا ہے۔ رواں برس اب تک فرانس سے سمندر کے راستے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے 12 ہزار 800 افراد برطانیہ پہنچ چکے ہیں۔ گزشتہ برس یہ تعداد 28 ہزار 526 تھی۔ مسٹر فریمنڈز نے کہا کہ صرف اس آپریشن سے تارکین وطن کا برطانیہ کی طرف بہائو رک نہیں جائے گا۔ لیکن اس میں خلل ضرور پڑے گا اور گروہوں کو منظم ہونے میں وقت لگے گا، اس دوران ہماری کاوشیں بھی جاری رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ مثالی تو یہ ہوتا کہ چھوٹی کشتیوں کی سپلائی بند کر دی جاتی تاکہ اسمگلرز کو انکے حصول میں پریشانی کا سامنا ہوتا، ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل کا کہنا تھا کہ اس آپریشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ انسانی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے کچھ بھی کرنے سے نہیں رکے گا۔اور یہ گرفتاریاں جرائم پیشہ گروہوں کو واضح پیغام دیتی ہیں کہ جو لاچار افرادکواپنی گھٹیا تجارت کانشانہ بناتے ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور لوگوں کی جانیں بچائی جائیں گی ۔نیشنل کرائم ایجنسی اپنے انٹرنیشنل پارٹنرزکے ساتھ مل کر انسانی اسمگلرز کے خلاف سرگرم ہے۔

Comments are closed.