لندن:اگست میں معیشت غیر متوقع طور پر سکڑ گئی، جس کی وجہ سے کساد بازاری کاخطرہ بڑھ گیا، اس وقت جبکہ فیکٹریز اور صارفین دونوں ہی اپنی بقا کی جنگ لڑتے نظر آرہے ہیں، معیشت میں 0.3فیصد کی شرح سے کمی معاشی تجزیہ کاروں کیلئے حیرت انگیز تھی۔قیمتوں میں اضافہ کی شرح گزشتہ40سال کی تمام حدیں عبور کرچکا ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی کا بجٹ اتھل پتھل ہوگیا ہے۔ عام حالات میں ملک کی معیشت ترقی کرتی ہے اور لوگوں کی حالت میں کچھ بہتری آتی ہے۔
بینک آف انگلینڈ پہلے ہی پیش گوئی کرچکا ہے کہ برطانیہ اس سال کے آخر تک کساد بازاری کا شکار ہوسکتا ہے۔ قومی شماریات دفتر کے تازہ تریں اعدادوشمار کے مطابق اگست کے دوران جی ڈی پی میں 0.3 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ تیزی سے ہونے والی اس کمی کا سبب مینوفیکچرنگ اور مینٹی ننس کے کام میں تیزی سے کمی کی وجہ ہے اور یہ کمی تیل اور گیس کے سیکٹر میں ہونے والی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ قومی شماریات دفتر کے مطابق معیشت میں گراوٹ کا آغاز جولائی میں ہی ہوگیا تھا جب معیشت میں ترقی کی شرح صرف 0.1 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی لیکن اگست میں پیداواری اور سروسز دونوں شعبوں میں مندی کی وجہ سے کساد بازاری کی صورت حال پیدا ہوئی۔
اس دفعہ کھیلوں کے ایونٹس کے انعقاد سے بھی معیشت کو سہارا نہیں ملا، کورونا کی وجہ سے حکومت کی جانب سے اخراجات میں کمی اشیا سازی کے شعبے میں مندی کا بڑا سبب بنا اس کی وجہ سے دواساز اداروں اپنی پیداوار میں کمی کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔صرف اکائونٹنگ، آرکیٹیکچر اور تعمیرات سے متعلق شعبے ایسے ہیں، جہاں اگست کے دوران، جن میں 0.4 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ستمبر میں ملکہ کی وفات کی وجہ سے ہونے والی تعطیلات اور بینکوں کی اضافے کی وجہ سے اگست سے زیادہ کساد بازاری سامنے آنے کا خدشہ ہے۔ KPMG کے چیف اکنامسٹ یائل سیلفن کا کہنا ہے کہ برطانیہ اس وقت کساد بازاری کی چوکھٹ پر کھڑا ہے۔
برطانیہ کی معیشیت ٹیکنیکل اعتبار سے کساد بازاری کے دہانے پر کھڑی ہےاور لوگوں کی مالیت کی خرابی معیشت کی ترقی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پنتھیون میکرو اکنامکس کے چیف اکنامسٹ سیموئل ٹومب کے مطابق معیشت میں تنزلی کا سلسلہ اگلے سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ ICAEW کے اکنامک ڈائریکٹر نے منی بجٹ پیش کرنے پر چانسلر کواسی کوارٹنگ پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ اس کی وجہ سے مارکیٹ میں اتھل پتھل پیدا ہوئی اور فرمز و فیملیز پر اضافی دبائو پڑا۔ چانسلر کواسی کوارٹنگ نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ حکومت نے انرجی سپورٹ کا جو پیکیج اور معیشت میں بہتری کا جو پلان دیا ہے، اس سے موجودہ چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کے ملکوں کو چیلنجوں کا سامنا ہے۔
بزنس سیکرٹری جیکب ریس موگ نے بی بی سی پر باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ماہانہ بنیاد پر پیش کئے جانے اعدادوشمار عام طورپر زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے، یہ صورت حال ایک ایسے وقت پیدا ہوئی ہے، جب آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ عالمی معیشت کو ابھی اور زیادہ بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اگلاسال اخراجات زندگی میں اضافے کی وجہ سے کساد بازاری کا سال ہوسکتا ہے۔ مالیاتی اداروں نے منگل کو انتباہ جاری کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے صارفین کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے، اس لئے اگلے سال برطانیہ کی معیشت میں تیزی سے گراوٹ آسکتی ہے۔ مالیاتی اداروں نے اگلے سال برطانیہ کی معیشت میں ترقی کی شرح 0.3 رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔
Comments are closed.