لندن:یورپ کے ماحولیاتی ادارے یورپین ماحولیاتی ایجنسی نے کہا ہے کہ اگر کوئی اقدامات نہ کیے گئے تو تو گرمی کی لہریں یا ہیٹ ویوز صدی کے آخر تک ہر سال یورپ کے 90ہزار شہریوں کی موت کا باعث بن سکتی ہیں۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایجنسی نے بتایا کہ موافق اقدامات کے بغیر 2100تک تین ڈگری سیلسیس گلوبل وارمنگ کے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے 90ہزار یورپی سالانہ شدید گرمی سے مر سکتے ہیں۔
ماحولیاتی ایجنسی کے تخمینے کے مطابق اگر تین ڈگری سینٹی گریڈ کے بجائے ایک اعشاریہ پانچ یا ڈیڑھ ڈگری سیلسیس کی گلوبل وارمنگ ہو تو یہ اموات سالانہ 30ہزار تک کم ہو جاتی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک نے گلوبل وارمنگ کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح یعنی 1.5 ڈگری سیلسیس تک رکھنے کا عہد کیا ہے۔
ایجنسی نے انشورنس کمپنیوں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1980سے 2020کے درمیان تقریباً ایک لاکھ 29ہزار یورپی باشندے گرمی کی شدت سے ہلاک ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید گرمی کی لہروں، بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کے پھیلنے سے آئندہ برسوں میں خاص طور پر براعظم یورپ کے جنوب میں اموات کی تعداد میں اضافے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نےکہا کہ یورپ میں گرم موسم کی وجہ سے رواں سال اب تک کم از کم 15ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کا ریکارڈ رکھنے جانے کے بعد سے اب تک رواں سال جون تا اگست کے تین مہینے یورپ میں سب سے زیادہ گرم رہے، اور غیر معمولی طور پر بلند درجہ حرارت نے قرون وسطیٰ کے بعد سے براعظم یورپ کو بدترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔
ماحولیاتی ایجنسی کے مطابق گرمی کے خطرے کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی سے یورپ کے شہریوں میں متعدی بیماریوں جیسے ملیریا اور ڈینگی بخار ہونے کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔اسی طرح گرم ہوتے سمندری پانی بھی ان بیکٹیریا کے لیے تیزی سے موزوں ہوتے جا رہے ہیں جو ہیضے کا سبب بنتے ہیں۔
خاص طور پر بحیرہ بالٹک کے ساحلوں کے ساتھ واقع علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں یورپین ماحولیاتی ایجنسی کے مطابق زیادہ درجہ حرارت سے وابستہ اموات کو روکا جا سکتا ہے۔اس کے لئے’گرمی کے صحت پر اثرات کو کم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر حل کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں مؤثر ہیٹ ایکشن پلان، شہروں میں سبزے کو بڑھانا، عمارتوں کے درجہ حرارت کے حوالے سے مناسب ڈیزائن اور تعمیر، اور کام کے اوقات اور حالات کو ایڈجسٹ کرنا شامل ہیں۔
Comments are closed.