لندن:جموں وکشمیرکونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ سید نذیر گیلانی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے اپنے بھارتی ہم منصب کو تنازعہ کشمیر کے حل سے متعلق مذاکرات کی پیشکش پر آزاد جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے تحفظات کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشروط مذاکرات کی پیشکش خوش آئند ہے۔
تاہم انہوں نے اپنے ردعمل میں پاکستان کشمیر پالیسی اور اقوام متحدہ میں اس کے کردار کی نگرانی کاانکا تجربہ بہت مایوس کن رہاہے۔سید نذیر گیلانی نے کہاکہ پاکستان نے 15 جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایک دستاویز میں دلیل دی تھی کہ "ریاست جموں وکشمیر کا ہندوستان سے الحاق کشمیریوں کی موت کے وارنٹ پر دستخطوں کے مترادف ہوگا” جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کا تعلق دستور پاکستان کی دفعہ 257کے مطابق مذاکرات کا نتیجہ ہیں۔انہوں نے کہاکہ 20جنوری 1957 کو فلپائن میں منعقدہونیو الے سلامتی کونسل کے 773ویں اجلاس کے مطابق جب تک جموں و کشمیرمیں رائے شماری نہیں کرائی جاتی نہ تو ہندوستان اور نہ ہی پاکستان ریاست جموں و کشمیر پر خودمختاری کا دعوی کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ رائے شماری نومبر 1950 کے آخر تک مکمل ہو جانی چاہیے تھی۔
بھارت نے 21ہزارغیر مسلح فوجیوں کو رکھنے کی پیشکش بھی کی تھی اور اقوام متحدہ نے بھارتی فوج کی تعداد، رویے اور مقام پر پابندی عائد کی تھی جو ایک ماتحت فورس تھی۔انہوں نے کہاکہ پاکستان نے 5 نومبر 1965سے 15 ستمبر 1996تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کو 30 سال10ماہ اور 10دن تک نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے جنوری 2013میں برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کا حوالہ دینے کی پیشکش کا فائدہ نہیں اٹھایا انہوں نے کہاکہ جنوری 2013میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت پاکستان کے پاس تھی۔ جنوری کے مہینے میں سلامتی کونسل نے سولہ دفعی اجلاس اور 18مشاورتیں کیں، چار قراردادیں منظور کیں، ایک صدارتی بیان اور چھ عام بیانات جاری کیے۔ پاکستانی سفیر کشمیر کا کوئی ذکر کرنے میں ناکام رہے۔جس سے فرائض میں عدم دلچسپی اورغفلت ظاہر ہوتی ہے۔ سیدنذیر گیلانی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کشمیریوں کی معاشی اور سیاسی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے مارچ 1959میں سرینگر کا دورہ کیاتھا۔ 59سال کے وقفے کے بعد انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر اور سیکرٹری جنرل نے ریاست کی تینوں انتظامی خطوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تین اہم رپورٹیں پیش کیں۔ جن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کا احترام کرنے کی بھی سفارش کی گئی تھی جسے بین الاقوامی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے ان رپورٹوں میں کوئی دلچسپی نہیں ظاہر کی بلکہ اس کے برعکس اسکے متعدد اقدامات مشکوک قرارپائے 5اگست 2019 کی طرف سے بھارت کی طرف سے کئے گئے غیر قانونی اقدامات کے خلاف کوئی مناسب کارروائی کرنے میں پاکستان کی ناکامی نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے یہ عدم دلچسپی کشمیری حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس پر پاکستان کا بڑا حصہ پریشان ہے۔ سید نذیر گیلانی نے کہاکہ بھارت اور پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں مختلف انکشافات کئے گئے ہیں کہ ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل فیض حمید نے بھارت کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔ اس منصوبے کا ایک اہم حصہ یہ تھا کہ مسئلہ کشمیر کو 20سال کیلئے پس پشت ڈال دیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ 2008میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھارت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی سینئر رکن کے ساتھ اہم رابطہ اس وقت ہوا جب انہوں نے کانگو میں اقوام متحدہ کے استحکام مشن میں ہندوستانی آرمی چیف جنرل بپن راوت کے ساتھ خدمات انجام دیں۔جنرل بپن راوت نے کثیر القومی قیام آپریشن کی نارتھ کیو بریگیڈ اور جنرل باجوہ نے جنوبی کیو بریگیڈ کی کمانڈ کی۔جموں و کشمیر کونسل برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہاکہ یہ بات حیران کن ہے کہ جنرل باجوہ نے جموں و کشمیر کے عوام کی طویل جدوجہد کی تاریخ ، اقوام متحدہ کی قرارداوں اور کشمیری قیادت کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا اورآرٹیکل 257 کے تحت پاکستان کے کردار کی خلاف ورزی کی۔درحقیقت انہوں نے کشمیری عوام کو دھوکہ دیا ، اپنے حلف اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی کی ۔انہوں نے کہاکہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان معاشی اور سیاسی بحران میں گھرا ہوا ہے، جنرل باجوہ نے ہندوستان کو بات چیت کی پیشکش۔ جیسا کہ بجا طورپراجہ فاروق حیدر نے اشارہ کیا ہے کہ کشمیری ایک مضبوط ہندوستان اور انتہائی کمزور پاکستان کے درمیان ہیں۔انہوں نے کہاکہ اب وہ پاکستان نہیں ہے جس نے ایک وقت میں مغربی جرمنی کو طویل مدتی ترقیاتی قرض دیاتھا یا جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں بھارت کے خلاف L.40قراردادپیش کی تھی ۔
سید نذیر گیلانی نے واضح کیاکہ وادی کشمیر میں کشمیریوں کی ایک نسل کے قتل کی ذمہ داری سیاسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے اور ہندوستانی حکام کے ساتھ ان کے خفیہ رابطے کی وجہ سے بھارت کو 5اگست 2019کے غیر قانونی اقدام کی ترغیب ملی۔انہوں نے کہاکہ ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے جو لوگ کشمیر پر بھارت کے مذاکرات کی بات کر تے ہیں ان کے پاس کشمیر کے مسئلے کے بارے میں بہت کم معلومات نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کو بتایاجانا چاہیے کہ جموں و کشمیر کے عوام کی وکالت کرنے کی پاکستان کی صلاحیت پر کشمیری عوام کے اعتماد کی ایک حد ہے اور ہم مزید ناکامیوں یا "بددیانتی "کے متحمل نہیں ہو سکتے۔سید نذیر گیلانی نے کہاکہ گزشتہ سال5اکتوبر کو ہندوستانی وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں و کشمیر کے عوام کو دوبارہ براہ راست بات چیت کی پیشکش کی ہے۔ ہمیں ہندوستان سے بات کرنے کا حق حاصل ہے اور ہم بھارت سے بات کرنے کیلئے تنازعہ کشمیر کی تاریخ اور اس کے حقائق کے بارے میں دفتر خارجہ اور اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی افسر سے کہیں زیادہ قابل ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم اکیلے یہ نہیں کرنا چاہتے اور ہمیشہ مذاکرات کی میز پر پاکستان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔سید نذیر گیلانی نے کہاکہ دو جرنیلوں کی طرف سے ہندوستان کو 20 سال کے لیے مسئلہ کشمیر کو پس و پشت ڈالنے کی پیشکش کا انکشاف انتہائی تشویشناک ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کشمیر کے بارے میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہاکہ متحدہ عرب امارات کو ثالث کے طور پر نامزد کرنے کی ان کی تجویز درست نہیں اور میں کئی نقائص ہیں ، اس سے ہم کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دور ہو جائیں گے کیونکہ ان قراردادوں میں پاکستان کو تنازعے اور آزاد کشمیر سے متعلق اہم فریق قراردیا گیاہے۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ عرب امارات قابل اعتبار ثالث نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات نے WIONکو 5مارچ 2020کو دبئی میں "انڈیا اور ابھرتی ہوئی دنیا: قوم پرستی، کثیرالجہتی اور تخلیقی سفارت کاری” کے موضوع تیسری گلوبل سمٹ مشن پیس کی میزبانی کرنے کی اجازت دی۔ انہوں نے کہاکہ اس گلوبل سمت پہلے سیشن کاپہلا ایجنڈا آئٹم "بھارت کااہم جغرافیائی اقدام-کشمیر اسکا ایک داخلی معاملہ ہے "تھا۔متحدہ عرب امارات کو 5 اگست 2019 کے بھارت کے اقدام اور دسمبر 1994میں کاسابلانکا سربراہی اجلاس میں کشمیر پراسلامی تعاون تنظیم کے موقف کے بارے میں بخوبی معلوم تھا۔انہوں نے کہاکہ جن تین پاکستانیوں کو اس سمت میں شرکت کیلئے مدعو کیا گیا تھا، ان میں سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر اورپاکستانی صحافی، تبصرہ نگار اور براڈ کاسٹر ریحام خان شامل ہیں جنہیں کشمیر کے بارے میں پینل میں شامل نہیں کیاگیا تھا۔ انہیں بہت چالاکی کے ساتھ سربراہی اجلاس میں "پاکستان کی سفارتی حکمت عملی: معیشت، سلامتی اور داخلی وسیاسی استحکام” کے تیسرے سیشن میں پینلسٹ کے طور پر شامل کیا گیا۔انہوں نے کہاکہ تیسرے سیشن کو مزید سات حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا سیشن کشمیر میں بھارت یکطرفہ اقدام کو جائز قرار دینے اورتیسرے سیشن میں پاکستان کو سات مسائل پر اپنا موقف بیان کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ منتظمین دہشت گردی کے حوالے سے ایک ذیلی سیکشن متعارف کروانے میں کامیاب رہے جس کا عنوان تھا”دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف پاکستان کی کوششیں ۔تذویراتی استحکام کاجامع نظام کی تشکیل”۔سیدنذیر گیلانی نے کہاکہ موجودہ مشکل معاشی اور سیاسی بحران میں حکومت پاکستان کسی بھی طرح کشمیری عوام کی وکالت کرنے اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کا دفاع کرنے کی اہل نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ اہم وقت ہے کہ ہم سیاسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں اور ان سے پاکستان کی کشمیر پالیسی واضح کرنے کو کہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاملات کی حساسیت کی وجہ سے وہ بہت سے دیگر سنگین خدشات کاذکر نہیں کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ یہ ہم سب کیلئے مشکل کی گھڑی ہے ۔آخر میں سید نذیر گیلانی نے راجہ فاروق حیدر سے درخواست کی کہ وہ اس معاملے کو وزیر اعظم، قائدین اور متعلقہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اٹھائیں۔
Comments are closed.