لندن:حکومت نے زبردستی کی شادیوں کے خلاف کریک ڈائون کرتے ہوئے شادی کرنے کی عمر کو بڑھاکر18برس کردیا ہے۔ میرج اینڈ سوشل پارٹنر شپ ایکٹ میں تبدیلی کے بعد نئے قانون کا اطلاق انگلینڈ اور ویلز میں پیر سے ہوگیا ہے جس کے بعد16اور17برس کے لڑکے اور لڑکیاں والدین کی رضامندی کے باوجود بھی شادی یا سول پارٹنر شپ کے بندھن میں نہیں بندھ سکیں گے۔
قانون میں تبدیلی سے18برس سے کم عمر بچوں کو زبردستی شادی پر مجبور کرکے ان کا استحصال کرنا جرم ہوگا، خواہ اس کیلئے طاقت کا استعمال نہ کیا گیا ہو اور ملوث افراد کو سات برس تک کی سزا سنائی جاسکے گی۔ حکومت نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ قانون میں ترمیم سے جبری شادیوں سے نمٹنے میں بڑی پیش رفت ہوگی۔
جبری شادیوں کے انسداد کیلئے کام کرنے والی چیرٹی کرمانروان کی ڈائریکٹر نتاشا رتو نے بھی اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ اب جبری شادیوں کی نشاندہی اور رپورٹ کرنے کے حوالے سے بہتر مدد ملے گی اور قانون میں تبدیلی زبردستی کی شادیوں سے بچ جانے والوں کی بڑی فتح ہے اور یہ خطرے سے دوچار افراد کیلئے مددگار ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر زیادتی کا شکار ہونے والوں کیلئے قائم ہیلپ لائن نے گزشتہ برس جبری شادیوں کے حوالے سے64افراد کی مدد کی۔ تاہم انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ یہ تعداد متاثرین کی اصل تعداد سے بہت کم ہے۔ حکومت کے فورسڈ میرج یونٹ نے2021ء میں18برس سے کم عمر118بچوں کو جبری شادیوں کے حوالے سے مشورہ اور مدد فراہم کی۔
منسٹری آف جسٹس کے مطابق جبری شادیوں کے معاملے میں لڑکیاں، لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ انگلینڈ اور ویلز2018ء کے اعدادو شمار کے مطابق18برس سے کم عمر28لڑکوں کے مقابلے میں119لڑکیوں کی شادی ہوئی، جسٹس ڈو مینک راب نے کہا ہے کہ قانون توڑنے والوں کو قانون کی پوری قوت کا مقابلہ کرنا ہوگا اور کم عمر افراد کی شادی میں ملوث افراد کو7برس تک سزا ہوسکے گی۔
اس بل کو2021ء میں کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ پولین لیتھم نے پیش کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جبری شادیوں کے خلاف کام کرنے والوں کیلئےیہ ایک تاریخی موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ جبری شادیاں بچوں کی زندگیاں تباہ کردیتی ہیں اور ہم انہیں اس لعنت سے بچائیں گے۔
سیف گارڈنگ منسٹر سارہ ڈائنس نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ نئے قانون کے نفاذ کے ساتھ پولیس، سماجی کارکنوں اور فرنٹ لائن پر کام کرنے والے دیگر افراد کو متاثرین کی مدد کیلئے مناسب تربیت فراہم کی جائے۔
Comments are closed.