13 فیصد اساتذہ گزشتہ سال کے دوران طلبہ کے حملوں کا شکار بنے

79

لندن:ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 13فیصداساتذہ گزشتہ سال کے دوران طلبہ کے حملوں کاشکار بنے ،برطانیہ میں مارچ کے دوران NASUWT کے 8,466ارکان سے کئے گئے سروے کے دوران کم وبیش 48فیصد نے اسکول کی پالیسی کو غیر موثر قرار دے کر اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ 28فیصد اساتذہ نے بتایا کہ انھیں زبانی دشنام طرازی کا نشانہ بنایا گیا۔

اساتذہ نے بتایاکہ انھوںنے یونین کو بتایا کہ طلبہ نے انھیں ٹھوکریں مارین ،پیٹا ،مکے مارے اور طمانچے مارے جبکہ والدین ان پر چیخے چلائے۔

یہ رپورٹ گلاسگو میں یونین کی سالانہ کانفرنس کے دوران پیش کی گئی۔NASUWTکے مندوبین اتوار کو ایک قرارداد پر بحث کریں گے جس میں کہاگیاہے کہ اساتذہ پر حملے اب بہت سے اسکولوں میں تدریس میں معمول بن گئے ہیں ۔ ایک استاد نے بتایاکہ ایک طالب علم مسلسل مجھ پر کرسی پھینکتا تھا اور مجھے اور میری فیملی کو قتل کی دھمکی دیتاتھا۔

ایک اور استاد نے بتایا کہ 11لڑکوں میں مجھے کمرے میں گھیر لیا اور میری اشیا کی تلاشی لینے کی دھمکی دی، 36فیصد اساتذہ نے طلبہ یا والدین کی جانب سے زیادتیوں کی شکایت کی اور کہاکہ وہ اسکول انتظامیہ کی جانب سے ایسے واقعات سے نمٹنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کو غیر اطمینان بخش تصور کرتے ہیں۔

قرارداد میں کہا گیا کہ یونین کو اس بات پر تشویش ہے کہ آجرین اساتذہ کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔NASUWT کے جنرل سیکریٹری پیٹرک Roach کا کہناہے کہ کسی استاد کو طلبہ کی جانب سے زبانی یا جسمانی زیادتی کے خطرے کی صورت میں کام شروع نہیں کرنا چاہئے۔ آجرین کا فرض ہے کہ وہ خطرات کے تدارک کیلئے مناسب اقدامات کریں ۔

محکمہ تعلیم کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ کسی استاد کو کام کی جگہ پر خود کو غیر محفوظ نہیں محسوس کرنا چاہئے ہم طلبہ کے بیہیویرکو بہتر بنانے کیلئے کارروائی کررہے ہیں تاکہ ہر اسکول محفوظ ہو اور اس کاماحول قابل احترام ہو۔ ہمارے 10 ملین پونڈ کے Behaviour Hubsپروگرام کا مقصد 2021سے 2024کے دوران 700اسکولوں کو اپنے طلبہ کے بی ہیویئر بہتر بنانے میں مدد دینا ہے۔

Comments are closed.