مانچسٹر یونیورسٹی میں لیکچرز اور سیمینارز کے دوران نسل پرستانہ سلرز کا استعمال، سیاہ فام طلبہ کا احتجاج

63

لندن:مانچسٹر یونیورسٹی نے لیکچرز اور سیمینارز میں نسل پرستانہ زبان استعمال کرنے کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کرنے والے سیاہ فام طلبہ سے معافی مانگ لی۔ انڈرگریجویٹس کا کہنا ہے کہ انہوں نے فرانسیسی کلاس کے دوران ایک لیکچرار کی جانب سے نسل پرستانہ سلرز کے استعمال کی شکایت کی تھی لیکن جب سٹاف ممبر نے شکایات کئے جانے کے باوجود دوسرے اوقات میں یہ سلرز دہرائے تو انہوں نے احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ سینئر سٹاف نے ان سلرز کے استعمال پر معذرت کر لی ہے اور وہ طلبہ کے ساتھ مل کر اٹھائے گئے مسائل کو حل کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں۔

طلبہ نے بی بی سی کے If You Donʼt Know پوڈ کاسٹ کو بتایا کہ خاتون لیکچرر نے نومبر 2021 میں ایک سیمینار کے دوران ایک ٹیکسٹ سے پڑھتے ہوئے سب سے پہلے نسل پرستانہ سلر کا فرانسیسی ورژن استعمال کیا۔ طلبہ نے بتایا کہ پھر لیکچرار نے اسے انگریزی میں دہرایا۔ شیرون، جو اس وقت وہاں موجود تھی، کا کہنا ہے کہ جب میں نے اسے سنا تو وہ حیرت زدہ رہ گئی، خاص طور پر جب ٹیچر نے کہا کہ فرانسیسی میں اس کے معنی اتنے ناگوار نہیں ہیں۔ شیرون کا کہنا ہے کہ یہ بہت ذلت آمیز تھا۔ شیرون کا کہنا ہے کہ مجھے بس یہ یاد ہے کہ جب میں ایک سیمینار کے بعد ہالز میں واپس جا رہی تھی تو میں رو رہی تھی کیونکہ میں اس پر یقین نہیں کر سکتی تھی۔ میں خود کو بہت اپ سیٹ محسوس کر رہی تھی۔ شیرون کے مئی 2022میں اگلے تجربے نے اسے آفیشل شکایت کرنے پر آمادہ کیا۔

شیرون نے کہا کہ اسی لیکچرار نے فرانس کے لیگل سسٹم میں ایکویلٹی پر اپنے سال کے آخر میں لکھے گئے مضمون کے بارے میں اسے ریڈیکلائزڈ فیڈ بیک دیا تھا۔ شیرون نے بتایا کہ اس لیکچرار نے مجھ سے کہا کہ مضمون کو ذاتی غصے یا نسل پرستی کے بارے میں ناراضگی کیلئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنے کے لالچ میں نہ آئیں۔ شیرون نے کہا کہ میں نے اسے پڑھا تو میں بہت اپ سیٹ ہو گئی تھی اور مجھے نہیں لگتا تھا کہ میرا کام تنقید سے بالا تر ہے لیکن میں نے بہت ریڈیکلائزڈ محسوس کیا۔ شیرون کی شکایت کے نتیجے میں یونیورسٹی حکام سے ملاقات ہوئی اور شیرون کو اس لیکچرار، جس کے بارے میں اس نے شکایت کی تھی، کی جانب سے ذاتی طور پر معافی کی پیشکش کی گئی لیکن اس نے اسے ٹھکرا دیا کیونکہ وہ پورے سیمینار گروپ کیلئے معافی چاہتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔

ایک اور طالبہ آنیا کا کہنا ہے کہ اس نے بھی لیکچرار کو فرانسیسی میں وہی سلر استعمال کرتے ہوئے دیکھا تھا، جسے اس نے اس سال جنوری اور فروری میں ایک لیکچر اور ایک سیمینار میں پڑھا تھا۔ آنیا کا کہنا ہے کہ ٹیچر نے بنیادی طور پرطلبہ کو گمراہ کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اس کے بعد طلبہ نے احتجاجاً واک آؤٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ آنیا نے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ صورتحال احتجاج کی اجتماعی کارروائی کی متقاضی ہے اور ہماری آواز کو بلند کرنے کا بہی واحد طریقہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بطور سیاہ فام طالب علم ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ایسی اینٹی بلیک سلرز سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بالکل پاگل پن ہے۔ طلبہ نے ڈپارٹمنٹ میں انسٹی ٹیوشنل ریسزم کلچر کے بارے میں بھی شکایت کی ہے اور وہ کیوریکولمز میں زیادہ انکلوسیو ٹیکسٹ چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف سفید فام لوگوں کے خیالات کو اہمیت دیتا ہے۔ طلبہ اس کے بھی خواہاں ہیں کہ یونیورسٹی توہین آمیز زبان کے استعمال کے بارے میں اپنے گائیڈ لائنز کو اور دی سکول آف آرٹ اینڈ لینگویجز اینڈ کلچر میں اپنے تمام سٹاف کو اینٹی ریسزم ٹریٹنگ بھی دے۔ مانچسٹر یونیورسٹی نے طلبہ کے تمام مسائل اور شکایات کی انویسٹی گیشن شروع کر دی ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اس کے نتیجے میں تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اس صورت حال نے ان کی پڑھائی کو متاثر کیا ہے۔ شیرون نے کہا کہ اس نے اپنی ڈگری چھوڑنے اور ترک کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا ہے اور اسے خدشہ ہے کہ تحقیقات کو گھسیٹا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس تمام صورت حال نے میری سٹڈیز میں خلل ڈالا ہے اور میں ان تمام کلاسز کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں، جن میں صرف اسی وجہ سے میں فیل ہونے کے راستے پر ہوں۔ شیرون نے کہا کہ یہ معاملہ میری دماغی صحت پر بہت زیادہ اثر اندازہوا ہے اور اس نے مجھے شدید نفسیاتی اذیت پہنچائی ہے۔

Comments are closed.