تجزیاتی رپورٹ
لوٹن: امریکہ میں نئ حکومت کے قیام سے دنیا کے حالات میں تیزی سے تبدیلی آنا شروع ہو چکی ہے اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو امریکی سلامتی اور پالیسی ساز اداروں کی طرف سے ساری دنیا میں بلعموم اور مشرق وسطی میں بالخصوص گزشتہ حکومتوں کے برعکس پالیسی میں تبدیلی رونما ہوئی ہے، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی اور اسلحہ کا معاہدہ کیا تھا جس سے ولی ہد شہزادہ محمد بن سیلمان خطے کی سیاست میں طاقتور ترین حثیت سے ابھر کر سامنے آئے تھے اوران کے سخت گیر فیصلوں کے باعث ان کے ناقدین اور مخالفین میں کھلبلی مچ گئی تھی، تاہم اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر مشکل وقت میں ان کےساتھ کھڑے تھے ۔
موجودہ صورتحال میں صدر بائڈن اتنی شفقت کے قائل نظر نہیں آتے دو ہزار انیس میں پاکستان کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے پر نظر ثانی کر کے اپنے پرانے دوست پاکستان کو بھی کراون پرنس نے سخت پیغام پہنچایا تھا
تاہم امریکہ کے بدلتے رویے پر سعودی عرب ایک بار پھر پرانے دوست پاکستان کیجانب متوجہ ہوا ہے اور اب دو ہزار انیس میں ہونے والے معاہدے کی تکمیل کا خواہشمند نظر آتا ہے اور اس کی طرف سے تمام منصوبوں کے ساتھ ساتھ دس بلین ڈالر کی لاگت سے بننے والی ائل ریفائنری کی تعمیر کے لئے از سر نو عزم کا اظہار کیا گیا ہے
مذید یہ کہ سعودی عرب نے پاک چین راہداری منصوبے (سی پیک )میں بھی اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اپنے پرانے خلیف کے ساتھ مستقبل میں کس طرح کے تعلقات کو پروان چڑھاتا ہے؟
اسرائیل کے دفاع اور تیل کی دولت کے باعث مشرق وسطی ہمیشہ امریکہ کی ترجیح اول رہا ہے، اب ایران کے نیوکلئیر پروگرام کے لیےکون سی حکمت عملی احتیار کی جائے گئ یہ وہ اہم سوال ہے جو تجسس کا باعث بنا ہوا ہے؟
تاہم ایران، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے گزشتہ معاہدے کی پاسداری چاہتا ہے جبکہ امریکہ اس معاہدے پر نظر ثانی کا خواہشمند ہے کیونکہ خطے میں امریکی مفادات اور اسرائیل کی ایران کے بارے میں جارحانہ پالیسی گزشتہ معاہدے کی راہ میں بڑی رکاوٹ نظر آتی ہے، افغان طالبان کے ساتھ دوحہ معاہدہ بھی بائڈن انتظامیہ کے فیصلے کا منتظر ہے جبکہ امریکہ کی نظریں چین کا تعاقب کر رہی ہیں ۔
لہذا چین جہاں بھی اپنا اثرورسوخ بڑھائے گا وہاں
امریکہ کو اپنے سامنے پائے گا؟