اسلام آباد:پاک برٹش آرٹس اسلام آباد کے زیرِ اہتمام 9 اپریل 2021، بروز جمعہ دن 3 بجے محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ صدر پاک برٹش آرٹس اسلام آباد جناب طلعت منیر کے گھر راولپنڈی میں منعقدہ اس تقریب میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ادبی خواتین و حضرات اور پاک برٹش آرٹس پاکستان کے عہدے داران نے بھی شرکت کی۔ محفلِ مشاعرہ کا آغاز قومی ترانہ سے کیا گیا۔ تمام ادبی شخصیات نے قومی ترانہ کے احترام میں اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر ملی یکجہتی اور وطن سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے ترانہ بلند آواز میں پڑھا۔ جس کے بعد نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے جنابِ جنید آزر صاحب نے تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد باقائدہ اپنے کلام سے شروعات کیں۔
پاک برٹش آرٹس اسلام آباد اور طلعت منیر صاحب کی کاوشوں سے منعقدہ اس محفلِ مشاعرہ کی صدارت جنابِ نسیمِ سحر صاحب نے کی۔ نسیمِ سحر اس ملک کی قد آور ادبی شخصیت ہیں کہ جو بیس سے زائد کتب کے مصنف بھی ہیں۔ مہمانانِ خصوصی میں مشہور شاعر جناب قیوم طاہر صاحب، کوئٹہ سے تشریف لائی شاعرہ محترمہ جہاں آرا تبسم صاحبہ، جناب فرحت عباس صاحب اور مشہور شاعر ادیب اور محقق محترم خاور اعجاز صاحب شامل تھے۔ اسلام آباد، راولپنڈی، ہزارہ، حسن ابدال، کوئٹہ اور چکوال سے تشریف لائی دیگر علمی و ادبی شخصیات میں جنید آزر، فخر عباس، رخسانہ سحر، حنیف دیب، ضیا شاہد، طارق نعیم، حسینہ خان، وفا چشتی، رفعت وحید، حسن عباس رضا، عبدالقادر تاباں، عاصم منیر عاشی، حسن گمان، حیدر علی واحدی، ارباز باغی اور بلال شبیر ہادی شامل تھے۔ جب کہ صدر پی بی اے اسلام آباد جناب طلعت منیر صاحب کے گھر پر یہ تقریب ہوئی۔

شہر کچھ یوں ہوا وبال زدہ
ہر گلی کوچہ یرغمال زدہ
نسیمِ سحر
میں نہ کہتا تھا کناروں سے نکل جاؤں گا
میں نہ کہتا تھا مجھے صورتِ دریا نہ بنا
قیوم طاہر
آج ہیں اور مری پیاسی زمیں کے تیور
آج یہ ابر کہیں اور برس کر دیکھے
فرحت عباس
ہر ایک درد کو ہنس کر گلے لگاتے ہوئے
تمام عمر گزاری ہے مسکراتے ہوئے
جہاں آرا تبسم
اتنے جابر معاشرے میں منیر
اپنے ہونے پہ بھی ندامت ہے
طلعت منیر
جب نمو کا شائبہ بینائی میں ڈھلنے لگے
شاخِ حیرت آئینے میں پھولنے پھلنے لگے
جنیدآزر
ترا اشارہِ ابرو اتر گیا دل میں
مفر نہیں تھا سو رستہ بدل لیا میں نے
وفا چشتی
نگارِ شہرِ تمنا مجھے اجازت دے
میں چھوڑ دوں تری دنیا مجھے اجازت دے
حسن عباس رضا
پڑا ہوا ہے زمانے میں کال آنکھوں کا
اور اس نے مجھ سے کیا ہے سوال آنکھوں کا
رفعت وحید
شہرِ گماں میں حسرتِ تعبیر کے لئے
ہر اک کو اپنا خواب سنانا پڑا مجھے
طارق نعیم
اسی امید پہ صحرا میں بو دئے ہیں بیچ
کہ جلتی دھوپ میں ان کو کبھی اشعار ہونا ہے
حنیف دیپ
یہ کیسی منزلِ ہستی پہ آ گئے تاباں
کبھی کبھی تو خود اپنی بھی یاد آتی ہے
عبدالقادر تاباں
پھر سے دلی اجاڑ بیٹھو گے
دے دو میرا سری نگر مجھ کو
رخسانہ سحر
ہمارے عشق کا دریا زمیں آباد کرتا ہے
جہاں سے یہ گزر جائے صدا صحرا نہیں رہتا
فخر عباس
ہمارے زخم کو خواہش تھی تیرے ہاتھوں کی
ہمارے درد کا مرہم تری کمان میں تھا
ضیا شاہد
آسیب ظلمتوں کے ہوۓ حاوی اس قدر
سورج کی روشنی بھی اجالا نہ کر سکی
عاصم منیر عاشی
ہے مجھے پرواز کی خواہش گمان
جس فضا میں پھڑپھڑانا جرم ہے
حسن گمان
کل ملا تھا عشق راستے میں مجھے
کل کا پودا تو دیکھو شجر ہو گیا
حیدر علی واحدی
بڑی مشکل سے اپنے پائوں کی زنجیر لکھتے ہیں
جہاں مظلوم مرتے ہیں وہاں کشمیر لکھتے ہیں
ارباز باغی
تخلیہ اے زندگانی اب ہمارے جسم کو
راز میں رہنا پڑے گا اس لئے پہلو بدل
بلال شبیر ہادی
صدرِ مشاعرہ نسیمِ سحر نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ
"اس محفل کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں اردو ادب کی نامور شخصیات کے ساتھ ساتھ نئے تخلیق کار بھی موجود ہیں اور نئے لکھنے والوں کا قد آور علمی و ادبی شخصیات میں بیٹھنا اور ان سے استفادہ حاصل کرنا خوش آئیند ہے اور اس سب کا سہرا طلعت منیر صاحب کے سر جاتا ہے جنہوں نے اس پروقار تقریب کا انعقاد کیا”۔
محفلِ مشاعرہ کے آغاز میں ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ اور شام چھ بجے چائے کے وقفہ کے دوران شعراء نے طلعت منیر صاحب کی لائبریری میں موجود کتب کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ نسیمِ سحر صاحب نے اپنی کتب کا گلدستہ طلعت منیر صاحب کو پیش کیا جو کہ ان کی لائبریری کا حصہ بنیں۔
محفل کے اختتام پر صدر پی بی اے اسلام آباد طلعت منیر صاحب نے تمام مہمانوں کی تشریف آوری اور محفل میں شمولیت پر شکریہ ادا کیا۔