ماں کا عالمی دن

0 268

تحریر: سحرش ریاض
شہر:منڈی یزمان

اللہ رب العزت کی تخلیق میں انسان کو بہت اہمیت حاصل ہے یقینا ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا (قرآنی مفہوم) اور اس میں عورت کی پیدائش کا ذکر پہلے فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اللہ ہی کیلئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، پیدا کرتا ہے جو چاہے، جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملادے، بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کردے، بے شک وہ علم و قدرت والا ہے۔‘‘(الشوریٰ50,49)۔

اللہ تعالیٰ نے آیت مبارکہ میں پیدائش کے ذکر میں بیٹی کا ذکر پہلے فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیٹی جو آگے عورت کا روپ ہے اور پھر ماں اللہ کے نزدیک بھی اہمیت کی حامل ہے۔ ماں کا روپ اللہ تبارک اللہ کی طرف سے وہ خوبصورت عطیہ ہے جس میں اللہ نے اپنی رحمت، فضل و کرم، برکت، راحت اور عظمت کی آمیزش شامل فرما کر عرش سے فرش پر اتارا اور اس کی عظمتوں کو چار چاند لگا دیا، قدموں تلے جنت دے کر ماں کو مقدس اور اعلیٰ مرتبہ پر فائز کر دیا۔ ممتا کے جذبے سے سرشار اور وفا کا پیکر اور پر خلوص دعاؤں کے اس روپ کی خوبیوں کو بیان کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

مئی کے دوسرے اتوار دنیا بھر میں ماں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ ایک روایت ہے ورنہ ماں کے بغیر تو کوئی دن، دن ہی نہیں ہوتا۔ اردو زبان کے حروف تہجی کا کوئی بھی مجموعہ لفظ ماں کی وضاحت نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے لئے سب سے خوبصورت تحفہ ماں ہے۔ ماں صرف ایک لفظ ہی نہیں ایک احساس، محبت، شفقت، پیار اور وفا جیسے ایک جذبے کا نام ہے۔ ماں ایک تختی کی مانند ہے جس پہ اولاد کچھ بھی لکھ سکتی ہے لیکن ماں صرف محبت لکھتی ہے۔
سچ کہوں تو جو بھی لکھ دوں لفظ ماں کی وضاحت ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ ہستی جس کے قدموں تلے جنت، وہ چہرہ جسے ایک بار پیار سے دیکھنے پر حج کا ثواب اور دنیا بھر کے سارے غم و پریشانیاں بھول جائیں، وہ دست شفقت جو ایک دفعہ پیار سے کسی کے سر پہ رکھ دے تو دنیا بھر کی بلاؤں سے محفوظ اور اگر یہی ہاتھ دعا کو اٹھیں تو عرش الہی تک جا پہنچیں،۔
ماں وہ بینک ہے جہاں آپ ہر احساس اور دکھ جمع کرا سکتے ہیں۔ ماں سے محبت کرو کیونکہ ماں کی پریشانی دیکھ کر اللہ نے صفا و مروہ کی سعی کو حج و عمرہ کا رکن بنا دیا۔ ماں جیسی عظیم نعمت کا کوئی نعم البدل نہیں۔
میں اس علمی دن پر اپنی ماں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں:۔ امّی جان! ہمیں آپ کی محبّت، شفقت اور چاہت کڑی دھوپ میں جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ واقعی، ماں کے قدموں تلے جنّت ہے۔ ہماری دِلی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت اور تندرستی عطا فرمائے اور آپ کا سایہ تادیر ہمارے سَروں پر قائم رہے (آمین)۔
میں آپ۔سے بہت پیار کرتی ہوں ۔آئی لوّ یو سو مچّ ۔اپکی بیٹی سحرش ریاض ۔

تحریر : انعم فضیل
شہر:آزاد جموں و کشمیر مظفرآباد

میری ماں ہے میرے نام پہ نقطوں کی طرح
بنا ماں کے میری کوئی پہچان نہیں

ماں ایک ایسا لفظ ہے جس کا مفہوم لکھنے بیٹھوں تو قلم مانند پڑھ جائیں اور ورق ناپید ہو جائیں گے
ماں ایسا انمول رشتہ ہےجو دنیا بھر کے تمام رشتوں میں سب سے ذیادہ پرخلوص ہے، کوئی بھی انسان، مذہب، قوم یا فرقہ ماں کی عظمت سے انکار نہیں کر سکتا- ماں ایک ایسا لفظ ہے جس کے تخیل سے ہی سکونِ قلب، آنکھوں کی ٹھنڈک، راحت جاں، محبت کی انتہا اور پیار کا احساس جنم لیتا ہے، ماں شفقت، خلوص، قربانی، ہمدردی اور بے لوث محبت کا دوسرا نام ہے۔ اس عظیم ہستی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے عالمی سطح پر مئی کے دوسرا اتوار "ماں کا دن” منایا جاتا ہے.
میرے نزدیک تو مرا ایک ایک لمحہ، ایک ایک سیکنڈ ماں کا دن ہوتا ہے، ماں کے بغیر تو کوئی دن ہی نہیں ہوتا.
ماں کا دستِ شفقت ہر مشکل کڑی میں شجر سایہ دار کی طرح سائباں بن کر ہمیشہ اپنی اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے. ماں اپنی اولاد کی خوشی کی خاطر ہر طرح کی تکلیف, دکھ, درد, اور پریشانی کو اندر ہی اندر برداشت کر لیتی ہے
ماں بے شمار قربانیاں دیتی ہے,
ماں اپنی محبت کے بدلے محبت نہیں مانگتی ہے,
ماں کی پرخلوص محبت اور قربانیوں کا کوئی ثانی نہیں ہے آندھی چلے یا طوفان آئے مگر ماں کے پیار, خلوص اور ہمدردی میں کوئی کمی یا رد و بدل نہیں آتا۔
نہ ہی ماں کبھی احسان جتاتی ہے اور نہ ہی اپنی بے پناہ محبت کا صلہ مانگتی ہے, ماں ایک دعا ہے جو اپنے پروردگار کے آگے دامن پھیلائے رہتی ہے۔
ماں سب کی جگہ لے سکتی ہے مگر ماں کی جگہ پوری دنیا میں کوئی بھی نہیں لے سکتا,

ماں گھر کا اجالہ ہے۔ کتنی کشش ہوتی ہے اس بے چینی میں جب
سب گھر میں موجود ہونے کے باوجود بھی ہماری نگاہیں کسی کی منتظر ہوتی ہیں، کوئی کام نہ ہونے کے باوجود بھی ماں کو گھر میں نہ پا کر دل بے چین ہو جاتا، نگاہیں چاروں اطراف گردش میں ہوتی ہیں اور سب سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ امی جان کدھر ہیں؟
ماں کو دیکھ کہ جیسے سکون سا آجاتا ہے۔
ماں کی بے کراں محبت کو لفظوں میں نہیں سمیٹا جا سکتا۔ اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
ماں کی گود پہلی درس گاہ ہے
ماں پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ لیکن ایثار و قربانی، بے لوث محبت،شفقت اور ہمدردی میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔
اللّٰہ رب العزت نے اس عظیم ہستی کی عظمت کی پہچان کے لیے ماں کے قدموں تلے جنت قرار دے دی ہے۔ اور صبح کے وقت ماں کا ہنستا ہوا چہرہ دیکھنے سے ایک افضل حج جتنا ثواب رکھ دیا ہے،
ماں کی گود میں جو سکون ہے وہ دنیا کے کسی بھی مخمل کے بستر میں بھی نہیں، ماں کی آغوش سب سے بہترین جگہ ہے،
ماں صبر و برداشت کا ایسا پہاڑ ہے جو دنیا بھر کی تکلیفوں, پریشانیوں، اور دکھوں کو اپنے اندر جذب کر کے لبوں پر مسکراہٹ سجائے رواں دواں رہتی ہے۔

تحریر: راشد بٹ
شہر:سیالکوٹ

اس روز میرے بیٹے کی سالگرہ تھی، میں کام سے جلدی گھر آ گیا، گھر داخل ہوتے ہی صحن میں چارپائی پر بیٹھی بوڑھی ماں پر نظر پڑی مگر مجھ کو لگا کہ شاید ماں کی نظریں پہلے سے ہی دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔ مگر میں نظر چراتے ہوۓ سر جھکاتے ہوۓ السلام کر کے اپنے کمرے کی طرف چل دیا،
اور ماں کا ہاتھ اُٹھا ہُوا ، ہوا ہی میں معلق رہ گیا، میں اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ شاید۔
ماں نے کچھ کہنا تھا۔
میری بیوی جو کے پہلے ہی کمرے میں موجود تھی مجھ کو یُوں دیکھ کر بولی کیا ہُوا، کس سوچ میں ہیں، آج تو بیٹے کی سالگرہ ہے خوش ہو جائیں، سارا انتظام میں نے کردیا ہے، میں نے ہڑبڑا کے کہاں ہاں ہاں بالکل۔
مگر میری نظروں کو وہی ہاتھ معلق دکھائی دے رہا تھا۔
بیوی کی محبت بچوں کی رونق زمانے کی الجھنوں نے مجھ کو شاید ماں سے کچھ دُور کردیا تھا۔
اسی سوچ میں تھا کہ ماں میرے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوۓ بولی ، راشد ، پُتر میں آ جاں؟
ماں کا یہ جملہ سنتے ہی میں کانپ گیا
کہ ماں کو اندر آنے کے لئے مجھ سے پوچھنا پڑا؟

بیوی بولی کیا ہُوا کیا ہُوا؟
میں کانپتے ہوۓ بولنے کی کوشش کرنے لگا، اتنے میں ماں اندر آ کے بولی
پُتر اَج بڑی جلدی آ گیا ایں، اللہ خیر کرے ماں صدقے…

میں بولا ، میں ویسے ہی جلدی آ گیا،
ماں بولی پُتر تیرے نال اک گل کرنی ایں، یک دم میری بیوی بولی ، ماں جی تُسی جاؤ سانُوں پہلے ای بڑے کم نیں، ماں بولی پُتر اَج کوئی خاص دن اے۔
میں نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور نظروں ہی نظروں میں پوچھا کہ، کیا ماں کو نہیں بتایا۔
اتنے میں ماں باہر چلی گئی،میں تھوڑی دیر سر جھکاۓ بیٹھا رہا اور پھر اُٹھا اتنے میں بیوی بولی کوئی ضرورت نہیں باہر جانے کی ، میں نے اُس کا بازو پکڑ کر زور کا جھٹکا دیا اور باہر چلا گیا،
صحن میں چار پائی پر بیٹھی ماں کے پاس بیٹھ گیا ماں اُٹھی،میں نے کہا ماں مجھے معاف کردیں ، میں نے ساری تفصیل ماں پر واضح کردی، اور پوچھا آپ میرے کمرے میں خیر سے آۓ تھیں، ماں تھی نا، ایک دم سے معاف کرتے ہوۓ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولی،پُتر تیرے باپ دے مرن تُوں بعد میں کلی ریہہ گئی آں تے جدوں تک تینوں مل کے پیار نہ کر لاں سکون نئی ملدا، تھوڑا ویلا کڈ کے میرے کول وی بے جایا کر،
میں ماں کا ہاتھ پکڑ کر چُومتے ہوۓ دھاڑیں مار کے رونے لگا۔ ور بار بار معافی مانگتا رہا۔ یہ سب میری بیوی ہمارے بچے کو اُٹھاۓ دیکھتی رہی جس کی آج پہلی سالگرہ تھی۔
اور ماں میرے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوۓ دھیمی سی آواز میں کہتی رہی، بس پُتر میں تے ایہی گل کرنی سی بس میں تے ایھو گل کرنی سی۔

کدی مینوں وی پُچھ لیا کر
کدی میرے کول وی بیہ جایا کر

تحریر: حماد زیف
شہر:چکوال

دنیا کے سب سے اچھے، سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ”ماں“ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات میں جو سب سے خوبصورت تخلیق ماں ہے۔ ماں باپ کا کوئی نعم البدل نہیں۔
باپ اولاد کے کھانے پینے، پڑھائی اور دوسری ضروریات زندگی کے لیے تگ و دو کرتا ہے تو ماں گھر کو سنبھالتی، سنوارتی اور چلاتی ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال، پرورش، خوراک، لباس اور نظم و ضبط قائم رکھنے میں ماں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ ماں ہی بچوں کو ظاہری اور باطنی طور پر تہذیب یافتہ بناتی ہے ۔
بچوں کے دن کا زیادہ تر حصہ ماں کے ساتھ گزرتا ہے ماں ہی انہیں جھوٹ، سچ، نیکی،بدی، اچھائی اور برائی کی تفریق سکھاتی ہے۔
بقول نپولین
”تم مجھے اچھی مائیں دو میں بدلے میں تمہیں اچھی قوم دوں گا “
مشہور انگریز ادیب جان ملٹن کہتا ہے کہ ” آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے۔ “
ڈاکٹر ہیوگو کے بقول:
”میں زندگی کی کتاب میں سوائے ماں کے کوئی تصویر نہیں دیکھتا۔
بقول افلاطون
”اس بات سے ہمیشہ ڈرو کہ ماں نفرت سے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے۔“
ناسو کہتا ہے کہ ”میں زندگی میں صرف دو ہستیوں کے سامنے جھکا ہوں۔ ایک خدا اور دوسرا میری ماں۔“
ڈرامہ نگار شیکسپیئر کے مطابق”بچے کے لیے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہے۔“
مشہور مفکر ایمرسن لکھتا ہے کہ ”ماں کا پیار ایسا ہے جو سیکھنے اور بتانے میں نہیں۔“
رومانوی شاعر شیلے کے مطابق ”دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں ۔“
حکیم لقمان لکھتے ہیں کہ ”اگر مجھے ماں سے جدا کر دیا جائے تو میں پاگل ہو جاؤں گا “
ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو عالمی سطح پر ماں کا دن منایا جاتا ہے۔ جس میں عالمی سطح پر رسماً ماں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
یہ دن اہل مغرب کے لیے تو بہت موزوں ہے کیونکہ انہوں نے والدین کو اپنی زندگی سے ریٹائرڈ کر کے ہوسٹلوں اور فلاحی مراکز کے حوالے کر دیا ہے۔ سال میں ایک دن جا کے پھولوں کے گلدستے، جوڑا ، چند پھلوں کی ٹوکریوں ، محبت بھرے کلمات ، کسی پر فضا مقام کی سیر، کسی مہنگے ہوٹل پہ کھانے اور چند تصاویر کے ذریعے انہیں احساس دلوایا جاتا ہے کہ آج ان کا دن ہے ۔
الحمدللہ ہم اہل مشرق خصوصاً مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ہمارے ہاں یہ مقدس رشتے ایک دن تک محدود نہیں ہیں بلکہ والدین کی خدمت اور اطاعت کو مذہبی معاشرتی اور اخلاقی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ ماں کے ادب و احترام اور بلند مقام و مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے نوجوانانِ اسلام کا نعرہ ہے
”اے ماں! آپ سال کے ایک دن تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر دن آپ کا ہی دن ہے۔ آپ کے بغیر کوئی دن مکمل نہیں۔ “

تحریر: صدف مرزا
شہر:یوکے لندن

ماں ایک لفظ ہے جو تین حروف پہ مشتمل ہے دیکھنے میں چھوٹا سا لیکن ہماری ساری زندگی پہ محیط ہے اور اپنے اندر محبت کا سمندر سمیٹے ہوۓ ہے
ماں کا تعارف چند الفاظ میں لکھنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ وہی ماں جو تکالیف اُٹھا کر دُنیا میں لائی اور آتے ہی اپنے ہاتھوں میں تھام لیتی ہے اس سے زیادہ انسان کی حفاظتی پناہ گاہ کوئی ہے ہی نہیں۔ ہم ساری زندگی اسی سہارے کی بدولت گزارتے ہیں وہی ماں جو اُنگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے وہی ماں جو اپنی نیند کی قربانی دے کر راتوں کو اپنی اولاد کے لیے جاگتی ہے، اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جاۓ تو ہم میں سے کوئی بھی ماں کی وفاؤں کا قرض نہیں چُکا سکتا ۔ اس کے لیے اللہ پاک نے بہت سے احکامات رکھے ہیں، یہ وہی رشتہ ہے جسے اللہ پاک نے اپنی محبت سے جوڑا ہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے اس سے بڑی اور خوبصورت مثال کیا ہو گی ماں کی عظمت کے لیے ۔
ایک سچا پاکیزہ اور انمول رشتہ صرف ماں کا ہی ہے جس کی زندگی اور بے لوث محبت ہمیں زندگی میں آنے والے ہر امتحان میں کامیاب بنانے کے لئے انتھک محنت میں گزرتی ہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس رشتے اس کا نعم البدل بھی نہیں چاہے کوئی کتنی ہی محبت کر لے لیکن خالص محبت ماں کی ہی ہوتی ہے۔ زندگی میں کامیابی ماں کی دُعاؤں اور وفاؤں کی بدولت ہے اگرچہ اولاد اُس کے جواب میں اس سے حُسن سلوک کی رو دار بھی نہ ہو پھر بھی ماؤں کا دل اولاد کی محبت سے لبریز ہی رہے گا ۔
ماؤں کا عالمی دن منانے کا مقصد بھی یہ نہیں کہ بس ایک دن کے لیے ماں کی تعریف یا خدمت کر لی جاۓ وہ تو ساری عمر بھی کریں تو کم ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے اس کی عزت اور تکریم اپنی جگہ اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ اور رشتے اور ان میں سب سے زیادہ اہمیت ماں کے رشتے کی ہے اس دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہے اس رشتے کی عظمت اور تقدس کو احساس دلایا جا سکے بہت سارے ممالک میں یہ دن منایا جاتا ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے اسے خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہے کوئی ماں کو تحائف دے کر اس کو پُرکشش بناتا ہے اور اور کوئی اپنے اچھے الفاظ اور محبتوں سے ماں کو گلے لگا کر اس کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔
زمانے کو دیکھتے ہوۓ میرا نقطہ نظر اور دُعا ہے کہ اولاد کے دل میں اور رویے میں بھی وہی محبت اور خلوص نظر آۓ جس کی وہ حق دار ہے ۔ بس ہم دُعا کر سکتے ہیں ہمارا ہر عمل ایسا ہو کہ والدین کی آنکھ میں آنسو نہ آنے دیں اور کوئی وجہ بنے بھی تو آنسو آنے سے پہلے ہی روک لیں ، یقین مانیۓ زندگی کہ ہر موڑ پہ کامیاب ہوں گے میرا تو یقین ہے ۔دُعائیں لیں سُکھ دیں دکھ کی وجہ نہ بنیں۔ دین و دُنیا کی کامیابی اسی میں ہے۔

تحریر : عابدہ ارونی
شہر:میر پور خاص( سندھ)

ماں ایک ایسا رشتہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں اس لئے تو اللہ نے کہا کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے ماں خدا کی محبت کا ایک روپ ہے اولاد کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہے۔ ماں اپنے بچوں کے لیے جیتی ہے خود دکھ سہہ لیتی ہے پر اپنے آنچل میں بچوں کو سمیٹ لیتی دھوپ ہو چھاؤں ہو سردی ہو یا گرمی انہیں تکلیف کا احساس ہونے نہیں دیتی بچے ہی اس کی سب سے بڑی دولت ہیں ماں اگر نہ ہو تو بچوں کو کوئی بھی نہیں پوچھتا بچوں کی خاطر زمانے کے ہر دکھ سہہ لیتی ہے پر اپنے بچوں کو احساس نہیں ہونے دیتی خود بھوکی پیاسی رہ لیتی پر بچوں کو کبھی بھوکا نہیں رہنے دیتی۔
ماں بچیوں کی سب سے اچھی دوست ہے وہ خوشی سے ان کی باتیں سنتی ہے اور پھر انہیں پیار سے اچھے طریقے سے سمجھاتی ہے اچھے بری کی تمیز بتاتی ہے ماں کا دل بہت بڑا اور سمندر کی طرح گہرا ہوتا ہے جس کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل ہے جب بیٹا پیدا ہوتا ہے تو پھولے نہیں سماتی اور بیٹے کو لکھا پڑھا کر کسی قابل بناتی پھر وہی بیٹا ماں کو اولڈ ھاؤس میں چھوڑ کر آ جاتا ہے اس کے پیار کا یہ صلہ دیتا ہے پھر بھی ماں کے دل سے ہمیشہ ان کے لئے دعائیں ہی نکلتی ہیں۔
ایک دفعہ ایک سائل نے ہادی عالم ؐسے سوال کیا کہ حضور قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے سائل نے دوبارہ سوال کیا کہ قیامت کے آنے کی کوئی نشانی بتا دیں۔ حضور پاکؐ نے فرمایا جب اولاد ماں کو ذلیل کرے گی تو قیامت آنے کے آثار ہونگے ۔
ماں کی قدر کرنی چاہیے جب ماں دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے تو زندگی ختم ہو جاتی اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں پوچھتا اور نہ ہی بے لوث دعائیں ملتی ہیں اس لیے ان کی زندگی میں ہی قدر کرنی چاہیے وہ تیز دھوپ اور سخت سردی اور بہت سے طوفانوں سے بچاتی ہے۔
اللہ رب العزت نے سورۃ البنی اسرائیل پارہ نمبر15 آیت نمبر23-24 میں فرمایا ہے ” اور فیصلہ کر دیا ہے تیرے رب نے کہ نہ عبادت کرو تم مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر پہنچ جائیں تمھارے پاس بڑھاپے کو ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تو نہ کہو تم انہیں اف بھی اور نہ جھڑکو انہیں اور کہو ان سے احترام کے ساتھ اور جھکائو ان کے اپنے پہلو عاجزی سے اور شفقت کی بنا پر اور دعا کرو ان کے حق میں اے میرے رب ! رحم فرما ان پر اسی طرح جیسے انھوں نے مجھے پالا بچپں میں

ایک روٹی تھی مگر چار تھے کھانے والے
ماں رہی بھوکی مگر بچوں کو مرنے نہ دیا

تحریر: ہادیہ خلیل
شہر:کلورکوٹ

ماں اعتبارِ گردشِ لیل و نہار ہے
ماں آئینہ رحمت پروردگار ہے

"ماں” ایک ایسا رشتہ ہے جو اپنی اولاد کی خاطر کچھ بھی کر گزرتی ہے۔ اس لفظ کے سنتے ہی میرے ذہن میں کبھی غصے اور کبھی پیار سے دیکھتی ماں کی شکل آجاتی ہے۔ میری ماں دنیا کی حوصلہ مند اور محنت کش عورتوں میں سے ایک عورت ہے۔ میرے والد صاحب میری ماں کو بہت کم عمری میں چھوڑ کر اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ خاندان والوں سے تعلقات بھی اچھے نہ تھے۔ نا جانے کیوں ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں جو والد صاحب کی وفات کے وقت نا سمجھ تھے۔ میری ماں نے ہمیں ایک اچھی ماں اور اچھے باپ دونوں کی حیثیت سے پالا۔ زمانے بھر کے طنز برداشت کرتے ہوئے بھی انہوں نے ہماری تربیت بہت اچھی کی۔ انہوں نے اپنے آپ کو ، اللّٰہ پر اپنے بھروسے کو اور اپنی تربیت کو زمانے مطیں ثابت کیا۔ کچھ وقت پہلے جو لوگ ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے آج اٹھ کر سلام کرتے ہیں اور بڑے فخریہ انداز میں تعارف کرواتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں شرمندگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مفلسی کے حالات میں, جب جب میں ہمت ہار جاتی تھی تو ماں ایک جملے سے دلاسہ دیتی تھیں کہ ” اللّٰہ پر بھروسہ رکھو اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں” اور یہ جملہ آج تک مجھے صبر دیتا ہے۔
جب بھی ماں کے لیے لکھنے کے لیے قلم اٹھایا تو جیسے الفاظ ہی کم پڑ گئے ہوں۔ اگر میں لکھتے لکھتے صبح سے شام کر دوں تو بھی اس کے خلوص، اس کی محبت اور اس کے سچے جذبوں کو سر ورق نہ اتار سکوں گی۔ ایسا کوئی پیمانہ نہیں جس سے ماں کی محبت کو ناپا جا سکے۔ زندگی میں کسی ںھی مقام پر ماں کی محبت میں کمی نہیں آتی۔ خدا نے ماں کے عظیم تر ہونے کی پہچان اس طرح کرائی کہ اس عظیم ہستی کے قدموں کے نیچے جنت رکھ دی۔ اب جس کا جی چاہے وہ اس جنت کو حاصل کر سکتا ہے، اس کی خدمت کر کے، اس سے محبت کر کے اور عزت و احترام سے پیش آ کر۔ ماں کی دعاؤں سے بڑی سے بڑی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں۔ وہ بے قرار ہو تو عرش کو ہلا دیتی ہے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” اگر میری ماں زندہ ہوتی، میں نماز میں اللّٰہ کے حضور کھڑا ہوتا، ماں آواز دیتی اور میں نماز چھوڑ کر دوڑ کر ماں کے پاس چلا جاتا اور دنیا والوں کو بتاتا کہ ماں کی عظمت کیا ہے۔”
ماں کے لیے کوئی ایک دن نہیں بلکہ ہمیں ہر دن ان کے لیے خاص بنانا چاہیے۔ ہمیشہ ان کی خدمت اور عزت کرنی چاہیے۔ خصوصاً بڑھاپے میں اپنی ماں کا ساتھ دیں اور ان کا خیال رکھیں۔

زندگی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں

Leave A Reply

Your email address will not be published.