اسلامی اصولوں پر زندگی گزارنے کے لئے قرآن اور احادیث پر عمل کرنا بلاشبہ وہ پہلا متبرک عمل ہے جسے اپنی زندگی کا اہم حصہ بنا لینا کامیابی کی ضمانت کہلائے گا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر آپ ایک قرآنی آیت یا حدیث نبوی کے معانی سمجھنے کے لئے کھوج شروع کریں تو ہماری یہی عمر ناکافی ہو گی۔ انسان اتنی محنت کس لئے کرتا ہے؟ کامیابی کے لئے تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکے۔ دنیا میں کامیابی کی بات ہو تو جب بھی کوئی عمل یا کام کرنے کے بعد یا کرتے وقت آپ کو سکونِ قلب ملے تو یہی آپ کی اصل کامیابی ہے۔ اور یومِ حساب پر بات کی جائے تو وہاں کی کامیابی سیدھے ہاتھ والوں کے حصے میں آتی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کامیاب ہونے والوں کو سب سے بڑا انعام جنت عطا کیا جاتا ہے۔ اور اسکے لئے دنیا کی کامیابی سب سے اہم ہے۔ سکونِ قلب کے لئے خلقِ خدا کی خدمت اور روح کو پاکیزہ رکھنے کے لئے عبادات کرنا بھی لازمی جزو ہے۔
کامیابی کے حصول کے لئے جہاں اسلام نماز، روزہ، حج، زکوة اور نفلی عبادات وغیرہ کا حکم دیتا ہے وہیں ہمیں ایک حدیث سب سے بڑی کامیابی کا بتاتی ہے "جنت ماں کے قدموں تلے ہے”۔ تمام فرض اور نفلی عبادات کو ایک طرف رکھ کر ماں کی خدمت کو جنت کے حصول کے لئے لازمی قرار دے دیا گیا۔ ماں کے قدموں تلے جنت سے مراد یہ ہے کہ اگر دنیا میں آپ کی ماں موجود ہے تو اِس ہستی کی خدمت میں کسی طرح کی کمی نہ آنے دیں۔ آپ کی عمر کے کسی بھی حصہ میں ہوں، آپ سکول میں طالب علم ہوں یا بڑے بزرگ ہوں مگر اس سب سے پہلے آپ اولاد ہیں اور سب سے پہلے آپ کی ماں آپ کے سامنے ہے۔ بھلے آپ کی اپنی ہی اولاد کیوں نہ ہو مگر جو حقوق ماں کے حصہ میں ہیں وہ سب سے زیادہ اور سب سے افضل ہیں۔ سب سے زیادہ محبت اور حسنِ سلوک کی حقدار ماں ہی ہے۔ اس بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: (اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا والد) اس حدیث کو بخاری: (5626) اور مسلم: (2548) نے روایت کیا ہے۔ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد کی محبت، توجہ، پیار اور ہر طرح کے دنیاوی، جسمانی اور روحانی و سماجی حقوق کی بات کی جائے تو پہلے تین حصے ماں کا حق ہونے کے بعد چوتھا حصہ باپ کا آتا ہے۔ اسی طرح قرآن بھی والدین کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ ’’اور یاد کرو جب لیا تھا ہم نے پختہ وعدہ بنی اسرائیل سے (اس بات کا کہ) نہ عبادت کرنا بجز اللہ کے اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔‘‘(البقرہ83)۔ اس قرآنی آیت کو سمجھنے کیلئے باریکی سے سوچنا اور اس پر فکر کرنا پہلی شرط ہو۔ شرک کی بات کرنے کے فوراً بعد ماں اور باپ سے اچھے سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی اگر آپ اپنی ماں اور پاب کے ساتھ اچھا سلوک اور محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم نہیں رکھتے تو آپ اتنے ہی گناہ گار ہوں گے جس قدر شرک میں گناہ ملتا ہے۔ یونہی آپ دیکھیں تو جہاد فی سبیل اللہ کا حکم بھی اسلام دیتا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ ظالم کے خلاف جہاد کرو۔ اور تب تک جاری رکھو کہ جب تک حق غالب نہ آ جائے۔ باطل کے خلاف پرچم بلند کرنا اور امن کو قائم کرنا بھی قرآن کا حکم ہے۔ مگر اس میں بھی سب سے پہلا قدم ہے کہ آپ جہاد پر جانے سے قبل اپنی ماں سے اجازت لیں اور اگر آپ کو اجازت نہ ملے تو آپ کا جہاد بھی قبول نہیں ہو سکتا۔ دوسرے الفاظ میں جہاد سے زیادہ افضل والدین کی اطاعت کرنا اور ان کی خدمت کرنا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص (سیدنا) جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جہاد کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمھارے والدین زندہ ہیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں! تو آپ نے فرمایا: تم ان (کی خدمت) میں جہاد کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔ یہاں والدین کی خدمت میں جہاد سے مراد ہے کہ اگر آپ کے ماں باپ غریب ہیں اور آپ بلوغت کو پہنچ چکے ہوں اور ان کے لئے کما کر لا سکتے ہوں تو آپ ان کی غربت اور معاشی بدحالی کے خلاف جہاد کرتے ہوئے ان کو سکھ پہنچائیں اور ان کے لئے راحت کا ذریعہ بنے۔ اگر آپ ایک طالب علم ہیں اور آپ کے ماں باپ آپ کو پڑھا لکھا کر معاشرے میں کامیاب انسان اور اچھا شہری بنانا چاہتے ہیں تو آپ ان کی خواہش کے مطابق تعلیم حاصل کریں۔ نیز ان کی ہر جائز خواہش کو (شرک کے علاوہ) پورا کرنے سے آپ کو جہاد کے برابر اللہ ثواب عطا فرمائیں گے۔
ماں کے حقوق کا احادیث میں اس درجہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ اگر آپ کی والدہ وفات پا جاتی ہیں تو ان کے تمام قرض ادا کرنا اولاد کے فرضِ اولین میں سے ہو گا۔ بخاری شریف کی حدیث (1754) اس بارے میں موجود ہے۔ "ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ: (جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہا: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہو گئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے حج کرو؛ کیونکہ تم خود ہی دیکھو کہ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اس قرض کو ادا کرتی؟ اسی طرح اللہ کا حق بھی ادا کرو؛ کیونکہ اللہ کے حق کو ادا کرنا زیادہ لازمی ہے)” اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رقم کے لین دین کے معاملات سے ہٹ کر آپ کی والدہ حج کرنے کی نیت کر لیتی ہیں اور وہ حج کئے بنا ہی دنیا سے رخصت ہو جائیں تو یہ اولاد پر قرض ہو گا کہ وہ ان کی طرف سے حج کریں۔ اس طرح ان کی دینی لحاظ سے عبادت مکمل ہو گی۔ مگر یہ یاد رکھنا لازمی ہے کہ آپ تمام عمر اپنے والدہ کی طرف سے حج کرتے رہیں تب بھی آپ اس ایک رات کے برابر بھی حق ادا نہیں کر سکتے جب سردیوں کی رات میں ماں اپنے بچے کو گرم کرنے کے واسطے گرم کپڑے میں لپیٹتی ہے اور اسی بچے کے گیلے بستر پر سونا اسے منظور ہوتا ہے۔ اور ماں کی یہی محبتیں دیکھتے ہوئے اللہ نے بھی کہا تھا
"میں ستر مائوں کی محبت سے زیادہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہوں”۔
Trending
- پاکستان پریس کلب لوٹن برانچ کے زیر اہتمام حکومت پاکستان کیجانب سے پیکا ایکٹ کے نفاذ کیخلاف مشاورتی اجلاس
- راجہ محمد اقبال خان کے انتقال پر ممبر پارلیمنٹ راجہ محمد یاسین، لارڈ قربان حسین سمیت کمیونٹی کا اظہار تعزیت
- لوٹن :پیپلز پارٹی سائوتھ زون کے زیر اہتمام شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 17ویں برسی عقیدیت و احترام کے ساتھ منائی گئی
- جامعہ اسلامیہ غوثیہ ٹرسٹ ویسٹ بورن روڈ لوٹن میں دعائیہ محفل کا اہتمام
- سیکڑوں سابق افغان فوجیوں کو برطانیہ میں رہنے کی اجازت دینے کا فیصلہ
- ایرانی فورسز کی فائرنگ سے 260 افغان تارکین ہلاک
- 26ویں آئینی ترمیم، جے یو آئی، ن لیگ اور پی پی عدالتی اصلاحات پر متفق
- ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے؛ نیتن یاہو اور جوبائیڈن کی ٹیلیفونک گفتگو
- غزہ میں ایک ایک سال کے بچے ہمارے سامنے شہید ہوئے، برطانوی ڈاکٹر
- پاکستان کی علاقائی سالمیت و خودمختاری کی حمایت جاری رکھیں گے، چینی وزیراعظم

Prev Post