لندن:برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے سابق رکن لارڈ نذیر احمد کو تقریباً 45 سال قبل نوجوان لڑکی اور لڑکے کے ساتھ ریپ کی کوشش کے الزام میں مجرم قرار دیدیا گیا۔
میڈیا کے مطابق ایک خاتون نے شیفلڈ کراؤن کورٹ کو بتایا کہ نذیر احمد جو پہلے لارڈ احمد آف روتھرہیم تھے، نے ان پر اس وقت حملہ کیا جب وہ 16 یا 17 سال کے تھے تاہم میں اس وقت ان سے بہت کم عمر تھی۔لارڈ نذیر پر اسی عرصے کے دوران ایک لڑکے پر بھی جنسی حملے کا الزام ہے، جس میں انہیں عصمت دری کی کوشش کے 2 الزامات اور ایک ریپ کا مجرم پایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 2016ء میں متاثرہ خاتون نے پولیس کے پاس جانے کے بعد متاثرہ مرد سے بھی فون پر بات کی تھی۔جیوری نے ان کی گفتگو کی ایک ریکارڈنگ سنی، جو اس شخص کے ای میل کرنے کے بعد ہوئی، جس میں اس نے کہا کہ اس کے پاس ’اس بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے کیخلاف ثبوت‘ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق لارڈ نذیر احمد پر ان کے 2 بڑے بھائیوں 71 سالہ محمد فاروق اور 65 سالہ محمد طارق کے ساتھ فرد جرم عائد کی گئی تھی، تاہم دونوں کو مقدمے کا سامنا کرنے کیلئے نااہل سمجھا گیا۔میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فاروق اور طارق کو بھی اسی لڑکے کے سلسلے میں ناشائستہ حملے کے الزامات کا سامنا تھا، جس کے ساتھ ریپ کی کوشش کا لارڈ نذیر احمد پر الزام تھا۔جیوری نے پایا کہ انہوں نے واقعتاً ان کاموں کا ارتکاب کیا ہے جن کا الزام ہے۔
دوسری جانب لارڈ نذیر احمد نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ لارڈ نذیر احمد نے 1970ء کے ابتدائی سالوں میں ایک لڑکی اور لڑکے کے ریپ کی کوشش کی تھی، جب وہ 16 یا 17 سال کے تھے جبکہ لڑکی ان سے بھی کم عمر تھی۔بی بی سی کے مطابق لارڈ نذیر احمد نے نومبر 2020ء میں اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب کنڈکٹ کمیٹی کی رپورٹ میں پایا گیا کہ انہوں نے خود سے مدد مانگنے والی ایک مجبور خاتون کا جنسی اور جذباتی استحصال کیا تھا۔