لندن:ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث خاندانوں کو قرضوں کے دباؤ کا سامنا ہے۔ ایک خیراتی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ قرضوں کی ادائیگیاں کرنے سے قاصر رہنے کے معاملات دوبارہ سر اٹھانے کی توقع ہے کیونکہ ضروریات زندگی کے اخراجات میں اضافہ خاندان کے بجٹ کو متاثر کر رہے ہیں۔ ڈیبٹ ایڈوائزرز موجودہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے جدوجہد کر نے والے لوگوں پر زور دے رہے ہیں کہ ہر ماہ ادا کی جانے والی رقم کے سلسلے میں قرض فراہم کنندگان سے نئے انتظامات کرائیں۔ ایک والد نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسا کرنے سے بنیادی باتیں دوبارہ سستی ہو گئیں۔ واضح رہے کہ قیمتیں 30سال کی تیز ترین شرح سے بڑھ رہی ہیں، جس سے لوگوں کے مالی معاملات پر تا زہ دباؤ پڑ رہا ہے۔ کئی ہز ار لوگ قرض کے انتظام کے منصوبوں (ڈی ایم پیز) پر عمل پیرا ہیں، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اکثر لوگ قرض فراہم کنندگان کو اصل معاہدے کے تحت رقم ادا کرنے کے متحمل نہیں ہوتے۔
قرض دہندگان کو کم لیکن باقاعدہ ادائیگی کی پیشکش کی جاتی ہے جسے ہر ماہ ادا کیا جاتا ہے۔ یہ منصوبہ ڈیفالٹ کے امکان کو روکنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے اور بدلے میں قرض دہندگان سود یا مزید چارجز کو منجمد کر دیتے ہیں۔ قیمتیں، جن کا افراط زر سے موازنہ کیا جاتا ہے، فی الحال 1992 کے بعد سب سے تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ، جو پہلے اپنی ڈی ایم پی ادائیگیوں کو برقرار رکھتے تھے، اب اسے بہت زیادہ مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ گھریلو گیس اور بجلی کے بلز بڑھ جانے اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ سے اس دباؤ میں اضافے کا امکان ہے۔
ڈی ایم پیز پر بات چیت کرنے والی ڈیبٹ چیرٹی ’’سٹیپ چینج‘‘ سے تعلق رکھنے والی سو اینڈرسن نے کہا کہ کوویڈ وبائی مرض کے ذریعے ہم نے ایسے کلائنٹس کی تعداد میں اضافہ دیکھا جو عارضی طور پر منظم قرضوں کے حل پر اپنی طے شدہ ادائیگیوں کو پورا کرنے سے قاصر تھے اور اب ایسا لگتا ہے جیسے ضروریات زندگی کے اخراجات میں ڈرامائی اضافے کے نتیجے میں ہم متاثرین کی تعداد میں بھی اسی رفتار سے اضافہ دیکھنے جا رہے ہیں۔ چیرٹی کے کلائنٹس میں سے تقریباً دوگنا زیادہ لوگوں نے مارچ میں کہا کہ چھ ماہ پہلے کے مقابلے میں ضروریات کی لاگت میں اضافہ ان کے مقروض ہوجانے کی ایک اہم وجہ ہے۔ مالیاتی دبائو اور بے روزگاری یا فالتو پن پر کنٹرول کی کمی کے پیچھے یہ تیسری ممکنہ وجہ تھی۔ جب اینڈی بارویل نے دسمبر میں بی بی سی نیوز سے بات کی تو دو بچوں کے والد نے کہا تھا کہ ان کی مثال سے سیکھا جائے کہ آپ لیمونیڈ بجٹ پر شیمپین کی زندگی نہیں گزار سکتے۔ قرضوں نے انہیں دبائو کے دہانے پر پہنچا دیا تھا لیکن ان کی زندگی پھر سے پٹری پر آ گئی تھی۔ اب چھ ماہ بعد انہوں نے بتایا کہ کرایہ مزید مہنگا ہو جانے اور توانائی کے بلوں کی ادائیگی کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اب لگتا ہے کہ سب کچھ تھوڑا سا سخت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے ’’سٹیپ چینج‘‘ سے رابطہ کیا ہے اور اپنی ادائیگیوں میں ترمیم کر کے کچھ آسانی حاصل کرلی ہے۔ ٹھیک ہے، اس کا مطلب ہے کہ قرض ادا کرنے میں زیادہ وقت لگے گا لیکن کم از کم میں اب بنیادی دبائوکو برداشت کر سکتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے قرضے بھی ادا کئے جا رہے ہیں اور یہ کہ کوئی سود یا اضافی اخراجات نہیں ہیں۔ سارہ ولیمز ان مسائل کے حوالے سے ڈیبٹ کیمل بلاگ لکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشکل کی علامات کو جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں مزید اضافے کے امکان کا مطلب یہ ہے کہ اب جو بھی مشکل محسوس کر رہا ہے، اسے یہ پوچھنا چاہئے کہ وہ اگلے تین ماہ یا اس سے زیادہ کیسے گزریں گے۔
اگر آپ ابھی جدوجہد کر رہے ہیں، تو پھر کمی کے لئے کہیں لیکن حقیقت پسند بنیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ قرض دہندگان نہیں چاہیں گے کہ درخواستیں عام ہوں اور جب صورتحال بہتر ہوتی ہے تو قرض لینے والے ہمیشہ ادائیگیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دھوکہ باز آن لائن اور سوشل میڈیا پر قرض اور مالیاتی مشیر ہونے کا بہانہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ضروری ہے کہ حقیقی، مفت مشورہ سٹیپ چینج سے حاصل کریں۔ ان کی ویب سائٹ کے ذریعے اور 0800 138 1111 پر فون پر دفتری اوقات کار کے دوران رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Comments are closed.