لندن:جرائم کی روک تھام کی ایک کمپینرنے پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ سیاہ فام نوجوان پولیس کے خلاف اپنے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھاتے ہیں، انہوں نے پولیس کی جانب سے نوجوانوں کو روک کر تلاشی لینے کے تباہ کن طریقہ کار ’’سٹاپ اینڈ سرچ‘‘ کو ختم کرنے پر زور دیا۔ اسے ’’مستقل امتیازی سلوک‘‘ کا ایک فعل قرار دیتے ہوئے اسکارس برک کے لارڈ ہیسٹنگز نے دلیل دی کہ یہ عمل ’’بدتمیزی اور نفرت انگیزی‘‘ ہے اور اسے ختم ہونا چاہئے۔ انڈ ی پینڈنٹ کراس بینچر، جنہوں نے ’’کرائم کنسرن چیرٹی‘‘ اور ’’کیچ 22‘‘ کی بنیاد رکھی، سخت تبصرے کئے جبکہ دیگر لارڈز نے ملکہ کی تقریر پر اپنی بحث جاری رکھی، جس میں پولیسنگ سے متعلق قانون سازی بھی شامل تھی۔
سٹاپ اینڈ سرچ کے استعمال میں 22 فیصد اضافہ ظاہر کرنے والے تازہ ترین اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے لارڈ ہیسٹنگز نے کہا کہ ہم میں سے وہ لوگ خاص طور پر سیاہ فام نوجوان سٹاپ اینڈ سرچ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی کمیونٹیز سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ آپ کو بتا ئیں گے کہ یہ ایک ناانصافی ہے اور اس نے کمیونٹیز میں اور پولیس پر اعتماد کو ختم کر دیا ہے اور ان لوگوں کو بے چین کر دیا ہے جو قانون کی حمایت میں زیادہ مائل ہوتے ہیں تا کہ وہ اس میں حصہ لینے کے لئے کم مائل ہوں۔ انہوں نے دو ایتھلیٹس کو متنازع طور پر روک کر تلاشی لئے جانے پر روشنی ڈالی جو 2020میں اپنے بچے کے ساتھ لندن سے گاڑی میں جا رہے تھے۔ حال ہی میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ برطانوی سپرنٹر بیانکا ولیمز اور پارٹنر ریکارڈو ڈاس سانتوس کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے ذمہ دار پانچ افسران کو بدعنوانی کے خلاف سخت تادیبی سماعت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تلاشی کی فوٹیج، جس کے دوران جوڑے کو ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔
سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں اور بعد میں محترمہ ولیمز نے پولیس پر الزام لگایا کہ اس جوڑے کو نسلی طور پر پیش کیا۔ لارڈ ہیسٹنگز، جو یونیسیف یوکے کے نا ئب صدر ہیں، نے کہا کہ بڑے پیمانے پر روک کر تلاشی لینا ہمیشہ سے تباہ کن اور نقصان دہ ہے اور اقلیتی برادریوں سے جڑا کوئی بھی شخص جانتا ہے کہ یہ کتنا تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر لارڈز میرے ساتھ ان کمیونٹیز میں آنا چاہتے ہیں، تو وہ دیکھیں گے کہ نوجوان مرد اور خواتین پولیس کے خلاف اپنے دفاع کے لئے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ اکثر ایسا اضطراب کی وجہ سے ہوتا ہے وہ پھر اضطراب میں ملوث ہو جاتے ہیں جس میں پھر غیر ضروری جرم شامل ہوتا ہے۔ اسٹاپ اینڈ سرچ کا استعمال بڑھنے پر نشاندہی کی گئی کہ اکثریت کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی لیکن لارڈ ہیسٹنگز نے کہا کہ ان کی نفسیات، ان کے بر طانوی پن اور فلاح و بہبود کے احساس اور ان کی برادریوں کی شناخت کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ بے مثال اور تقریباً ناقابلِ علاج ہے۔ اسے ختم ہونا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پبلک آرڈر بل کو اس کی روک تھام کرنی چاہئے اور اب وقت آگیا ہے کہ پولیس کو یہ احساس ہو کہ مستقل امتیازی سلوک کا یہ عمل مکروہ اور نفرت انگیز ہے۔ اس کے برعکس سابق میٹ پولیس آفیسر اور ٹوری لارڈ ڈیوس آف گاور نے پہلے چیمبر کو بتایا تھا کہ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ 2019-20 کے مقابلے میں اسٹاپ اینڈ سرچ میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روک کر تلاشی لینا وہ واحد واقعی موثر ٹول ہے جو پولیس کے پاس اپنے جرائم سے لڑنے والے ٹول باکس میں ہے۔ بلا شبہ اس سے ہتھیاروں اور منشیات کو سڑکوں سے پکڑنے میں مدد ملتی ہے۔ حالیہ برسوں میں ہم نے لندن کی سڑکوں پر اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں چاقو کے زور پر ہونے والے جر ائم کے ذریعے نوجوانوں کے قتل کی خوفناک تعداد دیکھی ہے، میں اس بات کا دعویٰ کرتا ہوں کہ جب قانونی طور پر سٹاپ اینڈ سرچ پر عمل کیا جائے تو یہ ضروری اور اہم ہے۔
انڈیپنڈنٹ آفس فار پولیس کنڈیکٹ (آئی او پی سی) کی ایک حالیہ رپورٹ نے نسلی اقلیتی گروہوں پر ان کے غیر متناسب اثرات سے نمٹنے کے لئے روکنے اور تلاشی کے اختیارات کے استعمال پر نظر ثانی کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ سال کے آغاز سے مارچ 2021 تک سیاہ فام لوگوں کو روکے جانے اور تلاش کئے جانے کے امکانات سفید فاموں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ تھے جبکہ ایشیائی لوگوں میں ڈھائی گنا زیادہ امکان تھا۔ رپورٹ میں ایک سیاہ فام لڑکے کی کیس اسٹڈی شامل ہے، جسے 14 سے 16 سال کی عمر کے درمیان 60سے زیادہ بار تلاش کیا گیا، بعض اوقات ایک ہی دن میں ایک سے زیادہ مرتبہ۔
Comments are closed.