لندن:وزرا نے متنبہ کیا ہے کہ اس موسم سرما کے دوران 6 ملین گھرانوں کے بجلی سے محروم رہنے کا خدشہ ہے۔ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق وزرا کا کہنا ہے کہ حکومت بجلی کی فراہمی کی صورت حال خراب ہونے کی صورت میں بجلی کی راشن بندی کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ٹائمز کے مطابق حکومت موسم سرما میں بدترین صورت حال کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ وزرا کا کہنا ہے کہ اگر روس نے یورپی یونین کے ملکوں کو گیس کی فراہمی مزید کمی کردی تو موسم سرما میں گیس کی شدید قلت سامنے آئے گی۔
جس کے بعد صنعتوں اور گیس سے چلنے والے بجلی گھروں میں گیس کے استعمال کی ایک حد مقرر کی جاسکتی ہے، جس کے نتیجے میں بجلی کی قلت پیدا ہوگی اور کم وبیش 6ملین گھرانوں کو صبح اور شام کو بجلی کی راشن بندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ پابندی ایک مہینے تک نافذ رہ سکتی ہے، اگر روس نے یورپی یونین کو گیس کی فراہمی بالکل بند کردی تو اور بھی بدترین صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بزنس، انرجی اور صنعتی حکمت عملی کے محکمے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ کو گیس اور بجلی کی فراہمی کے کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہے اور گزشتہ عشرے کے دوران قابل تجدیدانرجی میں 90بلین پونڈ کی سرمایہ کاری کی بدولت برطانیہ ہر طرح کی بدترین صورت حال کا سامنا کرنے کیلئے پوری طرح تیار ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں دنیا کا سب سے زیادہ قابل بھروسہ انرجی سسٹم موجود ہے اور یورپ کے دیگر ملکوں کی طرح ہم روس سے انرجی کی درآمد پر انحصار نہیں کرتے لیکن سپلائی کی سیکورٹی کو خطرات لاحق ہیں، بزنس سے متعلق امور کے وزیر کواسی کوارٹنگ نے برطانیہ کے کوئلے سے بجلی بنانے والے بجلی گھروں کے منصوبے کے مطابق بجلی گھر بند نہ کرنے کو کہا ہے۔ ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ ڈریکس، ریٹکلف اور ویسٹ برٹن کے کوئلے سے بجلی تیار کرنے والے بجلی گھروں کو ابھی بجلی گھر بند نہ کرنے کو کہا گیا ہے، یہ بجلی گھر ستمبر میں بند کیا جانا تھا۔
ترجمان نے کہا کہ ہم نے انرجی سیکورٹی اور گھروں کو بجلی کی فراہمی کو مزید بڑھانے اور طویل المیعاد بنیادوں پر اس کی قیمتوں میں کمی کرنے وسیع آپشن رکھے ہیں۔ ترجمان نے کہا ہے کہ اگرچہ بجلی کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن کوئلے سے بجلی تیار کرنے والے بجلی گھروں کو اضافی بیک اپ کیلئے کھلا رکھنے کیلئے کہا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ہم اکتوبر 2024تک کوئلے سے بجلی کی تیاری کا سلسلہ ختم کردینے کے وعدے پر قائم ہیں۔
Comments are closed.