ہائی کورٹ کی برطانیہ سے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو روانڈا بھجوائے جانے کی اجازت

175

لندن:ہائی کورٹ نے برطانیہ سے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو اگلے منگل کو روانڈا لے جانے والی پرواز کو جانے کی اجازت دے دی ہے۔ کمپینرز سیاسی پناہ گزینوں کو مشرقی افریقی ملک بھیجنے کا عمل روکنے کی ابتدائی قانونی کوشش میں ناکام رہے، لیکن انہوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ پیر کو اس کیس کو کورٹ آف اپیل میں لے جائیں گے۔پالیسی کے تحت، غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہونے والوں میں سے کچھ کو وہاں پناہ کی درخواست دینے کے لیے روانڈا بھیجا جائے گا۔ تقریباً 31افراد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہیں پہلی پرواز سے بھیجا جا رہا ہے۔ جولائی کے اختتام سے پہلےایک مکمل عدالتی جائزہ لیا جائے گا، جہاں ہائی کورٹ مجموعی طور پر پالیسی کو چیلنج کرنے کی سماعت کرے گی ۔

اپنے فیصلے میں، جج مسٹر جسٹس سوئفٹ نے قبول کیا کہ وزیر داخلہ پریتی پٹیل کی اپنی پالیسیوں پر عمل کرنے میں عوامی مفاد ہے۔محترمہ پٹیل نے اپنے فیصلے کی تعریف کی اور کہا کہ حکومت اپنے منصوبوں کو آگے بڑھائے گی، جبکہ وزیر اعظم بورس جانسن نے اس فیصلے کو ’’خوش آئند خبر‘‘ قرار دیا۔ تاہم، مقدمہ دائر کرنے والے کمپینرز نے’’زبردستی ملک بدر‘‘ کیے جانے والے لوگوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ایک سیاسی پناہ کے متلاشی ، ایرانی سابق پولیس کمانڈر جسے بتایا گیا تھا کہ اسے منگل کو ملک بدر کر دیا جائے گا، اس نے کہا ہے کہ اسے روانڈا میں ایرانی ایجنٹوں کے ہاتھوں مارے جانے کا خدشہ ہے۔مئی میں ترکی سے برطانیہ پہنچنے کے بعد سے اسے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے غیر قانونی طور پر برطانیہ آنے والوں کو روانڈا بھجوانے پر عوامی رائے کیوں تقسیم ہے، یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ٹائمز اخبار کی رپورٹ کے مطابق پرنس آف ویلز نجی طور پر حکومت کی پالیسی پر تنقید کر رہےتھے، ایک ذریعہ کے حوالے سے کہا گیاکہ ان کے خیال میں یہ نقطہ نظر’’خوفناک‘‘ ہے۔

شہزادہ چارلس رواں ماہ کے آخر میں دولت مشترکہ کے سربراہی اجلاس میں روانڈا کے دارالحکومت کیگالی میں ملکہ کی نمائندگی کریں گے۔ان کے دفتر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ’’سیاسی طور پر غیر جانبدار‘‘ہیں۔ حکومت کو امید ہے کہ یہ اسکیم پناہ کے متلاشیوں کی انگلش چینل کو عبور کرنے کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ اس سال اب تک 10000سے زائد افراد خطرناک سمندری سفر کر کے برطانیہ آچکے ہیں۔ روانڈا کی طرف سے ان کی درخواست پر غور کیا جائے گا، متاثرہ افراد کو رہائش اور مدد دی جائے گی اور، اگر کامیاب ہوئے ، تو وہ پانچ سال تک تعلیم اور مدد تک رسائی کے ساتھ وہاں رہ سکیں گے۔جو لوگ روانڈا میں اپنی پناہ کی درخواست میں ناکام رہتے ہیں اگر وہ ملک میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں دوسرے امیگریشن راستوں کے تحت ویزا کے لیے درخواست دینے کا موقع دیا جائے گا، لیکن پھر بھی انہیں ملک بدری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔کمپینرز نے پرواز کو روانہ ہونے سے ر کوانے کی بھر پورکوشش کی تھی ۔

یہ کیس پبلک اینڈ کمرشل سروسز یونین (پی سی ایس) کے ساتھ ملک بدر کیے جانے والے پناہ کے متلاشیوں کی نمائندگی کرنے والے وکلاء کے ذریعے دائر کیا گیا تھا جو کہ یو کے بارڈر فورس کے 80 فیصد سے زیادہ عملے کی نمائندگی کرتا ہے- ان کے وکلاء نے روانڈا کے سیاسی پناہ کے نظام میں خامیوں اور اس امکان کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا کہ لوگوں کو ان ممالک میں بھیجا جا سکتا ہے جہاں ان پر ظلم کیا جائے گا ہوم آفس کے وکلاء نے عدالت کو بتایا تھا کہ اس منصوبے کو قانونی چیلنجوں کے ذریعے روکا نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ عوامی مفاد میں ہے، اور جج پر زور دیا کہ وہ انفرادی پناہ کے متلاشیوں کی جانب سے چیلنجوں کو مسترد کر دیں۔سماعت کے موقع پر، اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے، یو این ایچ سی آر نے بھی اس دعوے کے ساتھ ملک بدری کی پالیسی سے خود کو دور کرنے کے لیے مداخلت کی کہ ہوم آفس نے اسکیم پر اپنی پوزیشن کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے وکلاء نے یہ بھی کہا کہ اس نے ہوم آفس کو دو بار خبردار کیا ہے کہ روانڈا کے ساتھ اس کا انتظام غیر قانونی ہے۔

Comments are closed.