لندن:سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اچانک موت کا سبب بننے والے جینیٹک امراض قلب کا علاج دریافت کرنے کے قریب پہنچ گئے، جس کی وجہ سے برطانیہ میں ہر سال کم وبیش 260,000 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ برٹش ہارٹ فائونڈیشن کی جانب سے 30 ملین پونڈ ملنے کے بعد سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ریسرچرز کی ٹیم نے ڈی این اےکو تبدیل کر کے یا ناقص جین کو بے عمل کر کے دل کے وراثتی خلیوں کا علاج دریافت کرلیا ہے، جس کے بعد اب یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اگلے چند سال میں اس کے علاج کا انجیکشن تیار کرلیا جائے گا۔
جو لوگوں کے بازو پر لگایا جائے گا اور خاندان کے ناقص جین رکھنے والے فرد کو بیمارہونے سے بچایا جاسکے گا۔ برطانیہ میں ہر ہفتہ 35 سال سے کم عمر کے 12 افراد دل کے ایسے امراض کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں، جن کی تشخیص نہیں ہوپاتی، یہ اموات عام طورپر ورثے میں ملنے والی دل کی شریانوں کے مرض کی وجہ سے ہوتی ہیں، جسے genetic cardiomyopathy کہا جاتا ہے۔ genetic cardiomyopathy رکھنے والے لوگوں میں اپنے ناقص جین اپنے بچوں میں منتقل کرنے کے 50-50 فیصد امکانات ہوتے ہیں اور عام طورپر ایک ہی فیملی کے مختلف لوگوں کو دل کے کام بند کرنے کی شکایت ہوتی ہے اور دل تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بصورت دیگر وہ نوجوانی ہی میں موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ 2012ء میں فٹبال کے معروف کھلاڑی بولٹن میں کھیل کے دوران اسی کیفیت کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔ نئی ریسرچ کی ٹیم، جس میں برطانیہ، امریکہ اور سنگاپور کے معروف سائنسداں شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ دل کی cardiomyopathies کیفیت عام ہے اور عام طورپر 250 میں ایک آدمی کو متاثر کرتی ہے اور ہر اسکول میں ایسے ایک یا دو بچے اس بیماری کے موجود ہوتے ہیں۔ ہر جی پی کے پاس ایسے کئی مریض ہوتے ہیں لیکن مرض کی شدت کی مختلف صورتیں ہیں۔ ہر مریض کو اس تھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بہت بڑی تعداد میں مریض ا س سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 30سال کی ریسرچ کے دوران ہم نے بہت سی جینز دریافت کیں اور مختلف cardiomyopathies کا سبب بننے والی مخصوص جین دریافت کی۔ یہ معلوم کیا کہ وہ کس طرح کام کرتی ہے، ہمیں یقین ہے کہ ہم نے جین تھراپی تیار کرلی ہے اور اگلے 5برسوں کے دوران اس کے کلینکل ٹرائلز شروع کردیئے جائیں گے۔ ماہرین کو امید ہے کہ ریسرچ کے نئے پروگرام کے تحت دل کے مسائل کا سبب بننے والی جینز کو یا تو مستقل طورپر درست کردیا جائے گا یا ان کو بے عمل کردیاجائے گا۔ سائنسداں جین کے کام نہ کرنے کی وجہ سے پروٹین کی کم مقدار میں سپلائی کو بھی پورا کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ہارورڈ میڈیکل اسکول کی میڈیسن کی پروفیسر کرسٹائن سیڈ مین کا کہنا ہے کہ دل کو فکس کر کے اسے معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل بنا دیا جائےگا۔
انھوں نے بتایا کہ مریضوں میں پائی جانے والی زیادہ تر تبدیلیاں صرف ایک ڈی این اے کوڈ کے ذریعہ تبدیل کی جاسکیں گی، اس لئے اس بات کے امکانات میں اضافہ ہوگیا ہے کہ ہم صرف ایک جین کے ذریعہ دل کے عمل کو درست کردیں اور دل معمول کے مطابق کام کرنا شروع کردے۔ انھوں نے کہا اس سے پہلے کبھی ہم دل کو فکس کر کے مریض کو مستحکم اور صحت یاب کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے لیکن اب ہم ایسا کرسکتے ہیں اور یہی ہمارے پروجیکٹ کی خوبی ہے۔ برٹش ہارٹ فائونڈیشن کے پروفیسر نیلش سمانی کا کہنا ہے کہ جانوروں پر اس طرح کے تجربات کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
Comments are closed.