’’پاکستان کی مسلّح افواج کا کردار‘‘

137

سیاسی نعرہ بازی یا نعرہ فروشی کے اس موجودہ دور میں اپنے محسنوں کی قربانیوں اور وطن کے لیے لہو دے کر وفا پیکروں کی خدمات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے سرحدوں کی حفاظت ہو یا دہشت گردوں کی اندرونی خلفشار ہو سیلاب کی تباہ کاریوں سے قیامت صغریٰ برپا ہو زلزلوں کی آفتوں کے دوران فلک بوس اور برف پوش پہاڑوں میں پھنسے ہوئے کوہ پیماؤں کو ایمرجنسی میں بچانے کا مشن ہو ہمارے یہ جان نثار جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اس مشن کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ میں جب اپنی مسلح افواج کے کردار پر نظر دوڑاتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے کتنے ہی عظیم سپوتوں کے چہرے گھومنے لگتے ہیں سیاچین کا محاذ ہو یا کارگل کی چوٹیوں ہوں وزیرستان کے معرکے ہوں یا بلوچستان میں دہشتگردی کیخلاف مہمات ہوں ہر جگہہ ہمارے یہ جیالے سر پر کفن باندھے پیش پیش ہوتے ہیں کراچی شہر کی رونقوں کی دوبارہ بحالی میں بھی انہوں نے ایک ناقابل فراموش کردار ادا کیا کراچی شہر جو یرغمال بنا ہوا تھا لسانی فسادات، بوری بند لاشوں اور حادثات کی وجہ سے یہ شہر تو شہر آشوب بن چکا تھا اس شہر کو دوبارہ معمول پر لانے کیلئے مسلح افواج نے ایک اہم کردار ادا کیا وادی سوات میں جب دہشتگردوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے وہاں بھی ریاست کی عملداری کو ممکن بنایا گیا ہے ریاست کی رٹ قائم ہوئی معرکوں کی ایک لمبی تفصیل ہے بہادروں نے جموں وکشمیر کی لائن آف کنٹرول کے محاذ پر فقیدالمثال قربانیوں رقم کیں اور اپنی پوری پوری جوانیاں لوٹا دی ہیں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ کشمیر سے محبت ان کی رگوں میں پیوست ہے آج جب پورے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں اپنے عروج پر ہیں لوگ مررہے ہیں بے سرو سامانی کا عالم ہے اور موجودہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو پارہی ہے تباہ شدہ عوام کے سروں سے چھت بھی غائب ہوگئی ہے اور بیش بہا مالی اور جانی نقصان ہوا ہے وہ امداد کی راہ دیکھ رہے ہیں سینکڑوں کی تعداد میں افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اس موجودہ سیلابی آفت زدہ علاقوں میں بھی ہماری فوجی کمانڈ نے ملک گیر امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا ہے مصیبت زدہ افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جارہا ہے ان کے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام کیا جارہا ہے سیلاب کی وجہ سے ایسے حالات میں جبکہ ملک میں ایک ایمرجنسی کی صورتحال ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو اس ایمرجنسی صورتحال اور لوگوں کی مشکلات کی پرواہ نہیں ہے جبکہ موجودہ پی ڈی ایم حکومت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پریس کانفرنسوں کے زریعے یہ بیانیہ متعارف کروا رہے ہیں کہ عمران خان کو سازش کے تحت نہیں نکالا گیا ہے بلکہ سازش کے تحت لایا گیا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاقتوروں کے پاس تو عقل ہی نہیں ہے اور جو عقلمند ہیں انکے پاس تو طاقت ہی نہیں ہے اس قسم کی غیر حقیقت پسندانہ گفتگو لایعنی اور دھمکی آمیز ہے اس ساری گفتگو میں سیلاب کی تباہ کاریاں اور مرتی ہوئی عوام کا کوئی زکر تک نہیں ملک کے اس قدر دگرگوں اور مخدوش حالات میں مخاصمانہ سیاست ناقابل فہم اور ملک کے ساتھ دشمنی کے زمرے میں لگتی ہے اس سے ایک ہی بات اخذ کی جاسکتی ہے ان سیاسی شعبدہ بازوں نے عوام کے مسائل اور مشکلات کو بلائے طاق رکھ کر سارا زور اس پر لگا رکھا ہے کہ اپنے سیاسی حریف عمران خان کو کسی طریقے سے سیاست سے ناک آوٹ کروائیں اب الیکشن کمشن پر زور دیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آجائے تاکہ پوری پارٹی ہی ختم کی جائے اور اپنی اقتدار کی کرسی کو پکا کرلیا جائے جبکہ خود تو پورے بھان متی کے کُنبے کے پاس عوام کو دینے اور سمجھانے کے لئے کوئی مقبول بیانیہ سرے سے ہے ہی نہیں ہے بقول شاعر

’’گم جس میں ہوا کرتا تھا افاق وہ مومن
مینڈک کی طرح اب کسی تالاب میں گُم ہے‘‘

کالم کو ختم کرنے سے پہلے اپنے سپہ سالارکا ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال و مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے کئی ممالک کے ساتھ رابطہ کیا اور ملک کی ڈوبتی معیشت کو بچانے کے لئے کردار ادا کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی حالانکہ یہ کام حکومت کا ہے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم کا ہے لیکن شہبازشریف وزیراعظم کا حال اس طرح کا ہے کہ انکے اپنے مسائل کچھ اس طرح کے ہیں کہ ایک طرف بیٹے حمزہ شہباز کی کرسی چھن جانے کا غم دوسری جانب بڑے بھائی کی طرف سے سر زنش تیسری طرف اتحادیوں کی جانب سے اندر اندر سے بلیک میلنگ اور دھینگا مشتی میں گرا وزیراعظم اپنے فرائض منصبی سرانجام دینے سے قاصر ہے

میرے لئے سات سمندر دور بیٹھے ہوئے پاکستان کے افق پر نظر دوڑانے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کو آج مشکلات سے نکالنے کا کلیدی کردار ہماری مسلح افواج ہی کا ہے ریاست کے سارے ستون بشمول مسلح افواج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اجتماعی فیصلے قوم کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کریں سب سے پہلے معاشی ایمرجنسی وقت کی اہم ضرورت ہے جتنا جلد ہوسکے سیاسی عدم استحکام ختم کیا جائے موجودہ قومی سیاسی قیادت کو اگر ایک جگہہ نہ بٹھایا گیا تو ملک اور قوم مزید دلدل میں پھنس جائے گئی

بقول اقبالؒ
وہ قوم نہیں لائقِ ہنگامہ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے

آخر میں مسلح افواج کی ان عظیم ترین قومی اور ملی خدمات کی تحسین وتکریم کے باوجود یہ گزارش کرنا اپنی صحافتی ذمہ داری سمجھتا ہوں ماضی میں اگر مصلحت اندیشانہ طریقے سے کوئی فیصلے غلط ہوئے ہیں تو ان پر نظر ثانی کی جائے انکی اصلاح کی جائے اور ملک کو داخلی انتشار اور خارجی دباؤ سے بچایا جائے
پاکستان زندہ باد

Comments are closed.