لیوٹن:کوٹلی آزاد کشمیر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر اسپتال (DHQ Hospital) کو سی ایم ایچ (CMH) کا درجہ دیا جانا ناگزیر ہے ان خیالات کا اظہار عبدالمجید ملک ایڈووکیٹ نے لوٹن پوسٹ سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور اوائل میں کوٹلی کے DHQ ڈسٹرکٹ اسپتال کو بڑا کرنے اور اس کو سی ایم ایچ CMH کے درجہ دینے کی چہ میگوئیاں ہوتیں رہی ہیں۔ لیکن افسوس کہ تا حال اس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔ جبکہ ان دنوں میں ہمارے سدا بہار ایم ایل اے پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ انہوں نے کوٹلی ڈی ایچ کیو DHQ Hospital کے قریب بلڈنگ کیلئے مزید جگہ الاٹ کرنے کی مخالفت کی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یا تو یہ سرا سر جھوٹ تھا ایک الزام تھا یا پھر ہمارے سیاسی قائدین کی ناکامی ہے کہ پانچ سال گزرنے کو ہیں اور تا حال نہ تو اسپتال کی بلڈنگ بنائی گئی ہے اور نہ ہی ہمارے ڈی ایچ کیو DHQ Hospital کو سی ایم ایچ کا درجہ حاصل ہو سکا ہے آپ نے کہا کہ یہ ہمارے سیاسی قائدین اور راہنماؤں کی انتہائی بڑی ناکامی ہے۔ اور ہمیں یہ بھی علم نہیں ہے کہ اس اسپتال کیلئے رکھے گے فنڈز کس منصوبے میں ضم کر دئیے گے ہیں یا پھر سیاسی نو سر بازوں کی جیبوں میں چلے گے ہیں۔ ہم کوٹلی کے سب سیاسی قائدین سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ کو کوٹلی کی عوام سے زرا برابر بھی دلچسپی نہیں ہے؟ ۔اور آپ سیاسی لیٹرے صرف ووٹوں کیلئے انتخابات کے قریب جھولیاں پیھلاتے ہوئے عوام کے دروازوں تک پہنچ جاتے ہو۔
ملک مجید نے کہا کہ کوٹلی میں سی ایم ایچCMH نہ ہونے کی وجہ سے اور سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے مریضوں کو نزدیک ترین اسپتال راولپنڈی یا اسلامہ آباد ریفر کیا جاتا ہے۔ جوکہ کوٹلی سے تقریباً ایک سو میل کے فاصلے پر ہے۔ جبکہ 90 % مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ اور جو دس فیصد 10% بچ بھی جاتے ہیں۔ وہ مالی طور پر بہت پریشان ہو جاتے ہیں۔ اسلئیے کہ ہماری عوام نہایت غریب ہے اور وہ اسلامہ آباد یا راولپنڈی میں علاج نہیں کروا سکتے ہیں۔ اور ایک کثیر رقم کے مقروض بھی ہو جاتے ہیں۔اور انُ بیچاروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
مجید ملک نے مزید کہا کہ کوٹلی کی مشرق اور شمال میں اینڈین بارڈرز پر روزانہ جنگ لگی رہتی ہے اور بارڈرز کے قریب ایمرجنسی اسپتال کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت اموات ہوتیں ہیں۔ اور ان کو دور دراز کے بارڈرز کے علاقہ سے چارپائیوں پر اُٹھا کر ڈسٹرکٹ ہسپتال کوٹلی لایا جاتا ہے اور وہاں علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اسلامہ آباد یا راولپنڈی ریفر کیا جاتا ہے۔ اور ان بیچارے مریضوں کا خاتمہ دوران سفر آخر موت پر ہی ہوتا ہے۔ اسلئے ہماری موجودہ حکومت سے پرُزور اپیل ہے کہ بارڈرز کی قریب بھی ایمرجنسی اسپتال بناۓ جائیں تاکہ ایمرجنسی بنیادوں پر مریضوں کو First Aid فرسٹ ایڈ دی جا سکتی ہو۔ تاکہ ان کی جانیں بچا جا سکیں۔