میرے خیر خواہ دوستوں کا اصرار ہے کہ میں اپنے مافی الضمیر کے برعکس، فکری قلمی اور نظریاتی احتجاج کا راستہ چھوڑ کر مصحلت اور منافقت کا راستہ اختیار کرلوں کہ سچائی کے راستے میں دشواریاں اور مشکلات ہیں عیش و عشرت کی زندگی گزاروں اور نماز روزہ اور عبادات میں مشغول رہوں اور ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاوں اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلوں اور کسی کا خود ساختہ ترجمان بن کر زندہ باد مردہ باد کے نعرے بلند کرتا رہوں اور اپنے لئے پروٹوکول مالی منفعت اور مراعات حاصل کرتا رہوں یا کسی کا دربان بن جاؤں اور غلط کو غلط اور جھوٹ کو جھوٹ نہ کہوں اور سچائی اور حق کے بدلے کسی کا دم چھلا بن کر حرام حلال کی تمیز بھی نہ کروں انسانی حقوق آزادی اظہار رائے اور جمہوریت کی بقاء وغیرہ دلی دور است سمجھ کر بھول جاوں بہاڑ میں جائے ساری دنیاکی فکریں اپنی فکر میں لگ جاوں میری نظر میں ایسے لوگ جو ان راستوں پر چل رہے ہیں انسانیت کے کمتر درجے پر فائز ہیں مجھے ان لوگوں پر لعن طعن بھی نہیں کرنی چاہیے
ایسے دوستوں کے لئے میں مولانا مودودی رحمتہ اللہ کی تفہمیات جلد 3 کا ایک اقتباس شا مل کررہا ہوں ، اور آخر میں اپنی غزل کے چند اشعار
” اسلام کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
لَايُحِبُّ اللہُ الْجَــہْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ۰ۭ النسائ 148:4
اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، اِلاّیہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔
یعنی مظلوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظالم کے خلاف آواز اٹھائے۔
آزادیٔ اظہار رائے
ایک اور اہم چیز جسے آج کے زمانے میں آزادیٔ اظہار (Freedom of Expression) کہا جاتا ہے قرآن اسے دوسری زبان میں بیان کرتا ہے۔ مگر دیکھیے مقابلتاً قرآن کا کتنا بلند تصوّر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ ’’امر بالمعروف ۱؎ ‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ نہ صرف انسان کا حق ہے بلکہ یہ اس کا فرض بھی ہے۔ قرآن کی رو سے بھی اور حدیث کی ہدایات کے مطابق بھی۔ انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ بھلائی کے لیے لوگوں سے کہے اور برائی سے روکے۔ اگر کوئی برائی ہو رہی ہو تو صرف یہی نہیں کہ بس اس کے خلاف آواز اٹھائے بلکہ اس کے انسداد کی کوشش بھی فرض ہے۔ اور اگر اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی اور اس کے انسداد کی فکر نہیں کی جاتی تو الٹا گناہ ہو گا۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کو پاکیزہ رکھے۔ اگر اس معاملے میں مسلمان کی آواز بند کی جائے تو اس سے بڑا کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی نے بھلائی کے فروغ سے روکا تو اس نے نہ صرف ایک بنیادی حق سلب کیا بلکہ ایک فرض کی ادائیگی سے روکا۔ معاشرے کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو ہر حالت میں یہ حق حاصل رہے۔ قرآن نے بنی اسرائیل کے تنزل کے اسباب بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ بیان کیا ہے کہ كَانُوْا لَا يَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْہُ۰ۭ المائدہ 79:5 (وہ برائیوں سے ایک دوسرے کو باز نہ رکھتے تھے) یعنی کسی قوم میں اگر یہ حالات پیدا ہو جائیں کہ برائی کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہ ہو تو آخرکار رفتہ رفتہ برائی پوری قوم میں پھیل جاتی ہے اور وہ پھلوں کے سڑے ہوئے ٹوکرے کے مانند ہو جاتی ہے جس کو اٹھا کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس قوم کے عذابِ الٰہی کے مستحق ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہتی۔”
زمانہ ہے حیراں دل زار کیا
قیامت ہے اک تیری رفتار کیا
ضروری ہے ایثار فن کے لئے
جو نہ ہو دردمندی تو فنکار کیا
بڑی حادثاتی ہے یہ زندگی
مگر زندہ رہنے کا یے معیار کیا
یہ سب پیداگیری کے ہیں مشغلے
یہ تسبیح کیا اور یہ زنار کیا
قلم اپنے ہاتھ میں جب یے شیراز
ڈرائے گئی پھر ہمیں تلوار کیا
Comments are closed.