آزاد ومقبوضہ کشمیر کے حقوق کے لئے میں نے ہمیشہ اپنے دورِ طالبعلمی سےلےکر آج تک ہر پلیٹ فارم پر اپنا فرضِ عین سمجھ کر آواز اٹھائی ہے۔ پہلے نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن میں رہ کر پھر الحاق پاکستان کا بڑا داعی بن کر اور کبھی کرنلزم سے جرنلزم کے سفر تک ۔ اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہماری طرف کی کشمیری قوم کی اکثریت میں جو حالیہ دنوں میں موجودہ نظام کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور جس طرح خطرناک حد تک تلخیاں بڑھتی یی جارہی ہیں وہ مستقبل میں خدانخواستہ ناقابلِ تلافی نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں عوام کی اکثریت بھارت کو تو شروع دن سے اپنا کُھلا دشمن اور غاصب و قابض سمجھتی ہے لیکن آزادکشمیر کی عوام کی اکثریت بلخصوص اندرون اور بیرونِ ملک پاکستان کی موجودہ عسکری اور سیاسی قیادت سے اتنی ناراض و نالاں ہے کہ مجھے آزاد کشمیر کے سارے موجودہ ڈھانچے یا سیٹ اپ اور اقتداری طبقے کا جلد مکمل صفایا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اسلام آباد یا راولپنڈی کے لئے کچھ کٹھ پُتلیوں کے ذریعے آزاد کشمیر کو چلانا اب مشکل ہی نہیں ناممکن لگتا ہے بدقسمتی سے تاریخ سے نابلد دو چار نیم پاگل لوگوں کو طاقت کے نشے میں اس کا فی الحال ادارک نہیں ۔پاکستان کی موجودہ قیادت کے لئے یہ شاید انتظامی یا دفاعی یونٹ ہے مگر اس سے ایک پوری کشمیری قوم کا تشخص جُڑا ہوا ہے جب کوئی کنبہ قبیلہ اپنی شناخت تک کھونا برداشت نہیں کرسکتا تو کشمیریوں کا بھی یہ حق بنتا ہے کہ وہ اپنے علحیدہ تشخص کو برقرار رکھیں۔ کشمیر کا تعلق پاکستان کی سالمیت اور بقاء سے بھی جڑا ہوا ہے۔
محرومیوں کے خلاف پُرامن عوامی حقوق کے لئے احتجاج اور اٹھنے والی تحریک میں شامل ہونے والے بہتے خون، تشدد ، لاشوں اور گرفتاریوں سے جو چنگاریاں سُلگائی گئی ہیں اس کی آگ اس طرح کے پیکج کا اعلان کرنے اور سرنڈر کرنے سے ٹھنڈی نہیں ہوگی اب تو اورسیز میں آباد کشمیری جو پاکستان کے بلا معاوضہ سفیر چلے آرہے تھے ان کی باتیں سُن کر ایسے لگتا ہے کہ طوفان کا رُخ بھارت کی جانب نہیں بلکہ پاکستان کی جانب موڑا جارہا ہے اوورسیز میں آباد کشمیری ڈائسپورہ جو پاکستان کا اثاثہ ہیں انہیں فالٹ لائن بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اور اس کے آگے بند کون باندھے گا؟ سوال یہ بھی یے کہ کیا مملکت خداداد پاکستان کی مشکلات پہلے ہی گزشتہ دو تین سالوں سے کم تھیں کہ اُوپر سے آزاد کشمیر کا محاذ بھی کھول دیا گیا۔
پہلے سادہ لوح لوگوں کو گرفتار کروایا گیا پھر پولیس سے پنجاب کی طرح نہتے لوگوں کو مروایا گیا پھر رینجرز بھیجنے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔ مظفر آباد جیسے محفوظ شہر میں آنسو گیس پھینک کر سکولوں کے معصوم بچوں کو بیہوش کیوں کیا گیا نوجوانوں پر گولیاں چلائی گئیں آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر بھارتی توپوں سے کیا کم کشمیریوں کا خون بہتا چلا آرہا رہا ہے آپ کو گھبراہٹ کس بات کی ہوئی تھی عوامی ایکشن کمیٹی لوگوں کے جائز حقوق مانگ رہی تھی مظفر آباد فتح کرنے کوئی نہیں نکلا تھا اگر ایسا کوئی خطرہ ہوتا تو آزادکشمیر کے تمام اضلاع میں پاک فوج کا ایک ایک برگیڈ موجود ہے۔ آزاد کشمیر میں کبھی کسی نے پاکستان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھایا الحاق اور خود مختار کشمیر کے دونوں نظریات کیا پاکستان کی پالیسی کا حصہ نہیں ہیں جن کی آبیاری خود سرکاری اخراجات پر کی گئی۔اج بھی لوگ حکومت سے ناراض ہیں ریاستی اداروں میں بیٹھے افراد سے ناراض ہیں لیکن مملکت پاکستان کا یہاں کوئی دشمن نہیں ہے پھر شہید ہونے والے نوجوانوں کے خون کا ازالہ کون کرے گا اور جو نفرتیں اور خلیج کشمیری اور پاکستانی کے درمیان پیدا ہوئی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔
اگر رینجرز کی گاڑیاں جلائی گئی ہیں اور پتھر مارے گئے تو ذمہ دار اس کا کون ہے اور لائن آف کنٹرول کی طرف کیا پیغام گیا ہے اس کے بارے میں کسی نے سوچا تھا ۔مطالبات کو عوامی پریشر میں فوری مان لیا گیا تو ایک سال سے ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیوں کی جاتی رہی ہیں؟آزاد کشمیر کی تقریباً چالیس لاکھ آبادی میں سے 20 لاکھ تو آزاد کشمیر میں رہتے ہی نہیں وہ یا تو بیرون ملک ہیں یا پھر پاکستان میں مقیم ہیں 20 لاکھ آبادی کا مطالبہ ہے منگلا ڈیم نیلم جہلم پروجیکٹ یا آزاد کشمیر کے پانیوں سے پیدا ہونے والی بجلی جو تقریباً چار ہزار میگاواٹ ہے پیدا واری لاگت پر آزاد کشمیر کے لوگوں کو دیں جن کی ضرورت تقریباً ساڑھے تین سو یا چار میگاواٹ ہے آٹا اور دیگر راشن ڈسکاوٹ قیمت پر دیں جیسے گلگت بلتستان کے لوگوں کو دیا جارہا ہے اور آزاد کشمیر کی حکومتی مشینری کے شاہانہ اخراجات کو کم کرکے بجٹ کو ترقیاتی کاموں پر خرچ کریں کیا یہ سچ نہیں کہ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت جب گرائی گئی تو بے یقینی اور افراتفری کی ابتداء وہاں سے شروع ہوئی بلوچستان گوادر میں حق دو تحریک نوجوانوں نے شروع کی یہ تحریک محرومیوں کے خلاف وہاں کے نوجوانوں کی تھی جو غیر سیاسی تھی پھر کراچی میں "حق دو” تحریک شروع ہوئی اگرچہ اس کو شروع کرنے میں نمایاں کردار جماعت اسلامی کے موجودہ امیر حافظ نعیم الرحمان کا تھا جنہیں نہ صرف کراچی کے نوجوانوں نے مقامی انتخابات میں فتح سے ہمکنار کیا بلکہ وہ مئیر کا الیکشن بھی جیت گئے تھے پھر زور زبردستی سے جھرلو پھیر کر کے عوامی مینڈیٹ کے برعکس پیپلزپارٹی کا مئیر بنوا دیا گیا پھر آزاد کشمیر کے تاجروں نے تحریک شروع کی عوامی حقوق جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی تحریک شروع ہوئی۔
عوام مہنگائی بے روزگاری کی ماری اُٹھ کھڑی ہوئی یاد رہے یہ ابتداء ہے اختتام نہیں دوسری طرف آزاد کشمیر کی عوام نے جب پہلی بار گزشتہ الیکشن میں عمران خان کو ووٹیں دیں اور پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا پھر پاکستان میں عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو آزاد کشمیر کی چلتی حکومت کو گرانے کے لئے فارورڈ بلاک بناکر عارضی زور زبردستی کی حکومت قائم کی گئی پاکستان سے جو عمران خان کو پہلے سیاست اور پھر ریاست سے نکالنے کا عمل شروع ہوا جس سے وفاق کمزور ہوا اور علاقائی سیاست کو فروغ ملا عوام میں فروسٹریشن بڑھ گئی تو عوام نے ردعمل میں 8 فروری کے الیکشن میں اپنا ووٹ پی ٹی آئی کو دیا الیکشن سے پہلے الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد جس طرح عوامی امنگوں کے خلاف عوام کا مینڈیٹ چرایا گیا شب خون مارا گیا دھاندلی کے سارے ریکارڈ ٹوٹے اس سے نقصان کس کا ہوا ظاہر ہے پھر سیاسی،داخلی اور معاشی طور پر پاکستان کمزور اور غیر مستحکم ہوا آج بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو کشمیر کی طرح دیگر علاقوں میں بھی محرومیوں اور مسائل کی ماری عوام کی مزید تحریکیں شروع ہوجائیں گئیں جو ملک کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہوگا۔
کشمیریوں کو کمزور سجھ کر نظر انداز کیا جاتا رہا تو نتیجہ جو نکلا ہے وہ سب کے سامنے ہے کشمیر بنے گا پاکستان ریلیاں بھی شعبدہ بازیاں ہیں جو مسخروں کی ناعاقبت اندیشاں ہیں یہ محض قومی دولت کا ضیاع ہے اور کشمیریوں کے باہم انتشار و تقسیم کا باعث بھی ہے ایسے ایڈونچر سے مزید جگ ہنسائی ہوگی بہتر ہے آزاد کشمیر میں تعمیر و ترقی کا آغاز کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو داخلی خود مختاری دی جائے تاکہ آزاد کشمیر کے لوگوں میں احساس محرومی ختم ہو نعروں اور دعووں سے باہر نکلنا ہوگا ۔
Comments are closed.