دین اسلام میں حقوق الله اور حقوق العباد دونوں کو پورا کرنے کی تلقین کی گئی ہے ہم کلمہ گو مسلمان حقوق اللہ کا تو اہتمام کرتے ہیں الحمدللہ نماز روزہ حج اور زکواۃ میں بھرپور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن حقوق العباد کے معاملے میں اکثریت اس کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کرتی حالانکہ اللہ کے بندوں پر حقوق کا مسئلہ تو الله تعالیٰ رب العالمین ذوالجلال کے اپنے سپرد ہے جو اپنی عبادات میں کمی کوتاہیوں کو پچھتاوے اور استغفار کے بعد معافی تلافی کردے گا لیکن بندوں کے حقوق پورے نہ کرنے کی سزا اور پکڑ بڑی سخت ہو گی اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ انسان الله کی عبادات کو چھوڑ دے بنیادی طور پر حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے دین کا راستہ دنیا سے ہوکر گزرتا ہے آج صرف مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بارے میں چند باتوں کا سرسری طور پر جائزہ لیتے ہیں مسلمانان عالم کی اکثریت عبادات کلمہ نماز روزہ حج زکوٰۃ دینے میں مشغول ہے دین اسلام کو جتنا پڑھا جائے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر معاملے پر اسلامی تعلیمات ہماری رہنمائی کرتی ہیں آج جب قربانی کے جانور ذبح کرکے سنت ابراہیمی کی تکمیل کی جارہی ہے آئیے اپنی انا ضد اور انتقام کے جزبے کو بھی قربان کردیں ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت کو قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔
اس حدیث میں ان حقوق میں سے کچھ کا بیان ہے جو مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی پر واجب ہوتے ہیں۔ مسلمان کے اپنے بھائی پر بہت سے حقوق لازم ہوتے ہیں لیکن نبی ﷺ بعض اوقات کچھ معین باتوں کو ان پر خصوصی توجہ دینے اور ان كو شمار کرنے کے لیے صرف انہی کا ذکر فرما دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا ذکر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا۔ یعنی جب آپ کو کوئی شخص سلام کرے توآپ اس کے سلام کا جواب دیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں: ایک یہ کہ جب تم اس سے ملو تو اس سے سلام کرو“۔ جو شخص مسلمانوں کے سلسلے میں ان حقوق کی پاسداری کرے گا وہ دیگر حقوق کو پورا کرے گا۔ اس طرح سے وہ ان واجبات و حقوق کو پورا کرے گا جن میں بہت زیادہ بھلائی مضمر ہے اور بہت بڑا اجر ہے بشرطیکہ وہ اللہ سے اجر کا امیدوار رہے۔ ان حقوق میں سے سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ”جب تم دوسرے مسلمان سے ملو تو اسے سلام کرو“۔
دوسرا حق: جب کوئی شخص بیمار ہو کر اپنے گھر میں پڑا ہوا ہو تو اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کا اپنے مسلمانوں بھائیوں پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس کی زیارت کریں۔
تیسرا حق: جنازے کے پیچھے چلنا ساتھ ساتھ جانا ہے۔مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے گھر سے لے کر جنازہ گاہ تک اس کے جنازے کے ساتھ ساتھ جائے چاہے جنازہ گاہ کوئی مسجد ہو یا پھر کوئی اور مقام اور وہاں سے قبرستان جائے۔
چوتھا حق: دعوت قبول کرنا ہے ۔ مسلمان کا اپنے بھائی پر یہ حق ہے کہ جب وہ اسے دعوت دے تو وہ اس کی دعوت کو قبول کرے۔پانچواں حق: چھینک کا جواب دینا ہے۔ کیونکہ چھینک آنا اللہ کی نعمت ہے اس لیے کہ اس سے انسان کے اجزائے بدن میں جمع شدہ ہوا خارج ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اس کے نکلنے کے راستے کو کھول دیتا ہے اور یوں چھینک لینے والے کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے یعنی الحمدللہ کہے اور اس کے بھائی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کے جواب میں ”يَرْحَمُكَ اللَّهُ“ کہے اور اسے یہ حکم دیا کہ وہ اس کے جواب میں یہ کہے ”يَهْدِيكُمْ اللَّه وَيُصْلِح بَالكُمْ“۔ جو اللہ کی حمد بیان نہیں کرتا وہ تشمیت (یرحمک اللہ کہہ کر چھینک کا جواب دینا) کا بھی حق دار نہیں ہے اور اسے چاہیے کہ وہ کسی اور کے بجائے بس اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔
مسلمان کے مسلمان پر حقوق بہت زیادہ ہیں، ان میں سے کچھ عینی طور پر واجب ہیں کہ ہر شخص انہیں ادا کرے گا، اگر کوئی چھوڑ دے گا تو گناہ گار ہو گا۔ اور کچھ حقوق واجب کفائی ہیں، یعنی اگر کچھ لوگ اس حق کو ادا کر دیں تو بقیہ سب پر ادا کرنا لازم نہیں ہو گا، کچھ حقوق مستحب ہیں واجب نہیں ہیں اگر ان میں سے کوئی حق رہ جائے تو مسلمان کو گناہ نہیں ہو گا۔
مسلمان کی خیر خواہی کرنا واجب ہے.جب آپ سے مشورہ طلب کرے, یعنی کسی بھی معاملے میں آپ سے مشورہ کرے تو آپ اس کو اچھا مشورہ دیں یہ آپ پر لازم ہے، بلکہ اگر وہ مشورہ نہیں بھی کرتا تو تب بھی اس کی خیر خواہی کرنا لازم ہے۔
اپنے ہاتھ اور زبان پر قابو رکھنا۔
ہم ان اختلافات کو کیسے حل کریں گے جو نادانستہ یا جان بوجھ کر پیدا ہوئے ہیں؟
بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی زبانوں اور ہاتھوں کو قابو میں رکھیں جو ان جذبات کا اظہار کرنے کے لیے بہت زیادہ بے چین ہیں! قول و فعل میں سمجھداری سمجھدار انسان کی پہچان ہے۔ ہمیں شعوری طور پر صبر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنی زبان کو اس کا راستہ اختیار کرنے کی آزادی دیں، ہمیں خود سے بات کرنا، خود کا جائزہ لینا سیکھنا چاہیے۔ خاص طور پر جب دوسروں کے بارے میں بات کرنے یا ان کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرنے کی بات آتی ہے تو ہمیں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم کسی کو گمراہ نہ کریں۔ بغیر سوچے سمجھے بات کرنا، یا سن کر، بہتان کے مترادف ہے جس کے بارے میں ہمیں سختی سے تنبیہ کی گئی ہے۔
دوسروں کا شکریہ ادا کرنا۔
اظہار تشکر احسانات اور مدد فراہم کرنا نہ صرف معاشرتی آداب کی بنیادی ضرورت ہے بلکہ اس کے بہت دور رس اثرات بھی ہیں۔ یہ ہمارے تعلقات کو مضبوط کرتا ہے اور اس میں گرمجوشی کا اضافہ کرتا ہے۔ دوسری طرف، دوسروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا، رشتہ خواہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو، مایوسی کا باعث بنتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ ہم لوگوں کی قدر کرنا نہیں جانتے، کہ ہم صرف ان کو استعمال کرنا جانتے ہیں! ایک مسکراہٹ کے ساتھ خلوص کے ساتھ اظہار تشکر اور تعریف ایک روشن چمک پیدا کرتی ہے جو محسوس ہوتا ہے۔
دوسروں کو دیکھ کر مسکرانا صدقہ ہے۔
اللہ سب کچھ جاننے والا دوسروں کو دیکھ کر مسکرانے کو صدقہ سمجھتا ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ مسکراہٹ کیا اظہار کر سکتی ہے – بیمار احساس، قبولیت، گرمجوشی، اور اپنا وقت یا جگہ بانٹنے کی خواہش کی عدم موجودگی۔ آئیے ہم اپنے چہرے کو خوش گوار مسکراہٹ سے روشن کرنے میں بخل نہ کریں۔
مہربان، نرم، خیال رکھنے والا اور فکرمند ہونا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عفو و درگزر، رحمدلی اور نرمی کی بہترین مثالیں دی ہیں۔ ایک بوڑھی عورت جس نے مکہ چھوڑنے کا ارادہ کیا تھا کیونکہ اسے "محمد” نامی نوجوان کے ذریعہ ایک نئے مذہب کی تبلیغ کا خیال پسند نہیں آیا تھا، اس کو یہ احساس نہیں تھا کہ وہ اس کا سامان اٹھا کر اور مضافات تک اس کے ساتھ اس کی مدد کرنے والا ہے۔ شہر کے ایک نئے عقیدے کی تبلیغ کے بارے میں ہر طرح سے شکایت کرتے ہوئے، جس کے لیے پرانے رسوم و رواج کو ترک کرنے کی ضرورت تھی، اس نے آخرکار علیحدگی سے قبل پیغمبر سے اپنا نام پوچھا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ یہ وہی شخص ہے جس کی وجہ سے وہ مکہ چھوڑنے والی تھی، اس نے نہ صرف اپنے قدم پیچھے ہٹائے اور چھوڑنے کا فیصلہ بدل دیا، بلکہ اپنے مثالی نمائندہ اور ایک زندہ مثالی کو دیکھ کر اسلام قبول کر لیا۔
اب آتے ہیں ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایک دوسرے پر اللہ کی خوشنودی کی خاطر جب کوئی احسان کرتے ہیں کسی کے کام آتے ہیں بعض دفعہ احسان کا بدلہ جس پر احسان کیا جاتا ہے وہ اچھا نہیں دیتا یا احسان فراموشی کرتا ہے لیکن آپ کو دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ کسی دوسرے کے ساتھ احسان اور نیکی ترک کردینی چاہئے چونکہ اللہ کے ہاں آپ کے لئے اس نیکی یا احسان کا یقیناً اجر و ثواب ہے ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہو جا ئے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزین ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
آجکل جیسا کہ دیکھا گیا ہے دولت کی فراوانی ہے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ گیا مضبوط فیملی یا خاندانی نظام کمزور ہوگیا ہے مسلمان معاشرے اور گھرانے بھی نفسا نفسی کا شکار ہیں رشتے ناطے خاندان فیملیز کی اہمیت کم ہورہی ہے اس لئے اب ناراضیگاں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہوجاتی ہیں جس سے دوریاں بڑھ رہی ہیں اہل ایمان وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی سے دیر سے ناراض ہوں اور جلد راضی ہوجائیں ۔
آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم دنیا پورا مہینہ بڑے خشوع و خضوع سے عبادات کرتے ہیں مگر جو اصل مقصد ماہ رمضان کا ہے وہ تو یہ ہے کہ باقی 11 مہینے ایک مسلمان کی زندگی پر رمضان کا عکس نظر آئے مگر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ معدودے چند ایسے مسلمان ہیں جن کی زندگی میں حقیقی تبدیلی رونما ہوتی ہے اکثریت پھر اسی راہ پر چل پڑتی ہے اس لیے علماء و واعظین کو چاہیے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لانے پر توجہ دیں ۔
اللہ حامی و ناصر
Comments are closed.