کائنات کا رہنے والاہر انسان چاہے وہ امیر ہے یا غریب،دوسرے انسان کا محتاج ہے،امیر انسان نوکر کا محتاج ہے تو نوکر پیسوں کا۔کائنات کا حسن انسان کی بدولت ہے اور یہ خوب صورتی انسانوں کی باہمی تعاون کی صورت میں ہی برقرار رہ سکتی ہے۔اس دنیا میں جہاں بہت سارے لوگ اپنی ذات کے لیے سوچ رہے ہیں وہی ایسے لوگ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تو انہوں نے اس میں مستحق لوگوں کو بھی شریک کیا ، ان کی ضروریات کی تکمیل اوران کو آسانی دینے کی کوشش کی۔یہی وہ جذبہ ہے جس کی بدولت انسان کو روحانی سکون مل جاتا ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ بلا امتیاز مذہب وقوم کے دیتا ہے ۔
اگر ہم اقوام عالم پر نظر دوڑائیں تو 196 میںسے 25 ممالک ایسے ہیں جن کے پاس بے تحاشا دولت ہے۔جہاں ہر شخص کی اوسط آمدن ایک لاکھ ڈالر سالانہ ہے۔ جبکہ بعض ایسے ممالک بھی ہیں جہاں کی باسیوں کی اوسط آمدن ایک ہزار ڈالر سالانہ یا اِس سے بھی کم ہے ۔ماہرین کے نزدیک کسی بھی ملک کی ترقی میں تین عوامل ادارے ، ثقافت اور جغرافیہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اداروں کا عمل دخل 50 فی صد ، ثقافت 20 فی صد ، جغرافیہ اور باقی دنیا کے ساتھ روابط 10 فی صدعمل دخل رکھتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین وسائل کی کمی کے فرق کو ایک بہترین لائحہ عمل کے ذریعے کم کیا جاتا ہے جس کو CSR کہا جاتا ہے۔
CSR (Corporate Social Responsibility)بنیادی طور پرقومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک قسم کا پرائیویٹ کاروبارہے۔جس کے ذریعے انسانیت کی فلاح کے لیے رضا کارانہ طور پر کام کیا جاتا ہے۔ اس کا بڑا مقصد تعلیم، صحت ، خوراک جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پرکام کرناہے۔یہ ایک ایسی سماجی ذمہ داری ہے جس میں اگر سب مل کر کام کریں توکسی بھی مفلو ک الحال معاشرے میں نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔دنیا بھر میں سی ایس آر(CSR) کی درجہ بندی میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی لا رہا ہے۔پچھلے 10 سالوں میں سب سے زیادہ لوگوں پر خرچ کرنے والے ممالک کی درجہ بندی کچھ اس طرح ہے :
(1)امریکہ (2)میانمار (3)نیوزی لینڈ (4)آسٹریلیا (5)آئر لینڈ (6)کینیڈا(7)انگلینڈ(8)نیدرلینڈ(9)سری لنکا(10)انڈونیشیا
سی ایس آر (رفاہ عامہ )کے سلسلے میں امریکہ کے شہر سیٹل میں واقع’’ بل اینڈ میلنڈاگیٹس فاونڈیشن ‘‘قابلِ ذکر ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو اپنی عطیات اور فلاحی کاموں کے ذریعے دنیا بھر میں صحت ، تعلیم اور غربت کے مسائل کے حل کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ جس کا نعرہ ہے :
تمام انسانوں کی قدر و قیمت برابر ہے۔(ہم عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے انتہائی بے تابی اورامید کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔)
بل گیٹس کے ادارے ’’مائیکرو سافٹ‘‘ نے کمپیوٹر کی دنیا کا کلچر بدل دیا لیکن یہ فاؤنڈیشن جو کررہی ہے اس نے پوری دنیا کو تبدیل کردیا ہے۔’’ بل اینڈ میلنڈاگیٹس فاونڈیشن ‘‘نے اپنی ریسرچ ٹیم اور وسائل کے ساتھ دنیا بھر میں 32 ملین زندگیاں بچائی ہیں۔ جہاں 100 ملین لوگوں نے ایچ آئی وی(HIV)، ٹی بی(TB)، اسہال، ملیریااور خواتین کے لئے پیدائش پر قابو پانے والی یعنی حمل سے بچاؤ کی سہولیات فراہم کی ہیں۔ ان کی ریسرچ ٹیم ہر دن اپنی تحقیق و تجربات سے ایسے طریقے تلاش کر رہی ہے جس کی مدد سے وہ ادویات کی دنیا میں تبدیلی لاسکیں ۔’’ بل اینڈ مینڈیلاگیٹس فاونڈیشن ‘‘اس بڑی ذمہ داری کو مندرجہ اصولوں کی بنیاد پر نبھارہے ہیں۔
1-بھرپور شراکت :
کسی بھی آئیڈیا پر کام کرنے کے لیے مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح بل گیٹس اور میلنڈا گیٹس نے دنیا بھر میں صحت کے مسائل حل کرنے ، تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے اور غربت ختم کرنے جیسے بڑے آئیڈیا زپر کام کرنے کے لیے اپنی کمپنی کے 40 بلین ڈالر اپنی فاونڈیشن کو دیے ہیں۔ اس کے ساتھ سالانہ 6 بلین کے بھاری فنڈز اپنی اس فاونڈیشن کو مسلسل دے رہے ہیں۔اس کے علاوہ اس پروجیکٹ میں گورنمنٹ کاامدادی بجٹ اور کچھ مخصوص ادارے جیسے اقوامِ متحدہ، UNICEF, USAID, WHO وغیرہ بھی شامل ہیں۔
2- سفر:
سی ایس آر کی ٹیم 14 سال سے ترقی پزیر ممالک جیسے افریقہ، کینیا، ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ کا سفر کررہی ہے۔ وہ دیہاتی علاقوں کا دورہ کر کے خواتین، مرد اور بچوں سے ان کے مسائل کے بارے میں بات چیت کر کے انہیں ان کی صحت، تعلیم اور خواتین کو بچوں کی پیدائش پر قابو پانے کے متعلق خاص حل پیش کرتے ہیں۔جس میں خاص طور پر ملیریا کی ویکسین فراہم کرنا، زراعت کے طریقے اور غذا کے بارے میں آسان حکمت عملی ، خاندانی آمدن حاصل کرنے کے ذرائع اور اس کے متعلق حل ، خواتین کی ضروریات اور صحت کی دیکھ بھال وغیرہ شامل ہیں۔
3- ڈیٹا :
سی ایس آر ٹیم مختلف ممالک کا ڈیٹا حاصل کرتی ہے۔جس کے بعد اُن کے لیے کسی علاقے میں جا کر کام کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے۔ 2014 میں بل اور مینڈیلا گیٹس فاونڈیشن نے 1960 کی شرح اموات اور 2014 کی شرح اموات کے اعدادوشمار اکٹھے کیے۔جس سے اُنہیں معلوم ہوا کہ1960 سے 2014تک شرح اموات 20 ملین سے کم ہو کر5 ملین تک رہ گئی ہے۔بل گیٹس کے مطابق ِاس سوشل بزنس پراگر مسلسل 30 سال کام کیا جائے تو یہ معاشرے کی بہتری اور انسانی بہبود میں ایک ایسی کامیابی ہے جس کا اثر صدیوں پرمحیط رہے گا۔
4- ٹیکنالوجی :
سی ایس آر ٹیم ٹیکنالوجی کے بہترین استعمال اور سائنسی ٹولز کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو طبی سہولیات، جدید ادویات کی فراہمی، زراعت کے لیے بہترین بیج، بجلی کی فراہمی، بہترین پالیسیاں بنانے جیسے بے شمار کام کرنے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے اُنہیں یہ جاننے میں قدرے آسانی بھی رہتی ہے کہ کن علاقوں میں اُنہیں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
5- اخلاقی ذمہ داری اور مواقع:
یہ دنیا جس میں7 بلین لوگ سانس لے رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر لوگ مختلف مسائل وتکالیف کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔اس لحاظ سے یہ یقینا ہر کسی کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے حل کے اقدامات میں اپنی حیثیت کے مطابق کردار ادا کرے اور اِس دنیا میں سب کے زندہ رہنے کے لیے مساوی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کرے۔جیسا کہ :
فیملی پلاننگ کا شعور:
اب تک ’’ بل اینڈ میلنڈاگیٹس فاونڈیشن ‘‘ صرف خاندانی منصوبہ بندی کے ایجنڈے پر 2.3بلین ڈالر خرچ کر چکی ہے۔ میلنڈا گیٹس کے مطابق پسماندہ علاقوں میں تعلیم و تربیت،کم عمر میں شادی اور بچے پیدا کرنے کے بارے میں تعلیم دینے کی بہت ضرورت ہے،تاکہ وہاں کے باشندے اپنی اور اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں خود سوچ سکیں اور فیصلہ کر سکیں کہ اُن کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔میلنڈا گیٹس کے مطابق 14 ملین لڑکیوں کی شادی 12،14 اور 16 سال کی عمر میں کر دی جاتی ہے۔یہ ایسی عمر ہے جس میں لڑکیوں کا جسم پریگننسی کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ایسے علاقوں میں تعلیم دینے کی اِس لیے بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی بیٹیوں کی زندگی کو ایسے خطرات سے بچا سکیں اور شادی کے بعد بچوں کی پیدائش میں وقفہ مینج کر سکیں۔
خوراک و غذا:
سی ایس آر ٹیم خواتین کو غذاء کے حوالے سے خاص ہدایات کے ساتھ خوراک بھی فراہم کر رہی ہے کہ اُنہیں اپنے بچوں کو ابتدائی دنوں میں کیاکھلانا چاہیے اور پریگنسی میں خود کیا کھانا چاہیے۔ کیونکہ بہت سے بچے صرف اِس لیے ابنارمل یا اموات کا شکار ہو رہے تھے کہ ان کی خوراک کا خیال نہیں رکھا جاتا تھا۔
تعلیم:
سی ایس آر ٹیم بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ خاص طور پر عورتوں کو بھی تعلیم دے رہی ہے کہ بچے کی پیدائش کے فوراََ بعد اُنہیں نہلانے، کھلانے اورپیار کرنے کی کس قدرضرورت ہے اور یہ بچوں کی جذباتی ترقی میں کتنی اہم ہے ۔اب کئی علاقوں میں بچوں کو پیدائش کے بعد نہ نہلانے جیسے غیر صحت مندانہ معمولات کے کم ہونے سے بھی اموات کی شرح آدھی رہ گئی ہے۔
زراعت:
سی ایس آر ٹیم لوگوں کو پیسہ، چیزوں وغیرہ کو محفوظ کرنے یا اپنے استعمال میں سے کچھ بچا کر رکھنے کے بارے میں آگاہی فراہم کر رہی ہے۔ خواتین کو معاشی آزادی،پیسہ بچانے کی حکمتِ عملی، زراعت میں بیج بچانے کے بارے میں بھی تعلیم دے رہے ہیں۔
صحت:
ہر سال 3 ملین بچے زچگی اور 30 ملین بچے اسقاط حمل میں اموات کا شکار ہو جاتے ہیں۔سی ایس آر ٹیم کی طرف سے اب تک 30 بلین ڈالر خواتین کے مانعِ حمل پر خرچ کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اسہال و ملیریا سے بچاؤ کی ویکسین، پولیو کلینک،چائلڈ میرج پر قابو پانے ، فیملی پلاننگ پر کام کیا جا رہا ہے۔’’ماسلوزہیرارکے‘‘ کے مطابق جسمانی ضروریات کسی بھی انسان کی اوّلین ترجیح اور یہی سب کچھ ہیں ۔لہٰذا اِس دنیا کا بہترین مستقبل دیکھنے کے لیے انسان کی بنیادی ضروریات میں بہترین سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔
6-تصوراتی صدقہ :
یعنی Conceptual Charity اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ماہرین تعلیم، اساتذہ، محققین اور منٹورزکی ایک ٹیم تشکیل دیں جو دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے متعلقہ شعبے کے بارے میں تعلیم ،رہنمائی اور رتحقیق دے سکیں۔سی ایس آر ٹیم اس دنیا کے مستقبل کو بہتر بنانے اور بڑی تبدیلی لانے کے لیے اپنے وسائل تحقیقات پر لگا رہی ہے جو ٹیکنالوجی اور میڈیسن میں ایجادات کے ذریعے دنیا میں تبدیلی کے سفر کو آسان بنا رہی ہیں۔
رفاہ عامہ کی خدمت سرانجام دینے والوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم فراہم کرنے پراپنے وسائل زیادہ سے زیادہ لگائیں۔طلبہ پر اپنا پیسہ خرچ کریں تاکہ وہ سیکھ کرآگے بڑھ سکیں، اپنے پاوں پر کھڑے ہو سکیں اور اپنی زندگی میں بہتری کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں میں بھی تبدیلی لانے کے قابل ہو سکیں۔
سی ایس آر کیوں ناکام ہوتا ہے؟
سی ایس آر کے تحت فلاح و بہبودکے لیے کی جانے والی زیادہ تر کوششیں نا کام ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ لیڈرز، سیاستدان اور کمپنیوں کے سی۔ای۔او عوامی مفاد کے لیے کوشش کرنے کی بجائے ذاتی مفادکو مدّ نظر رکھتے ہیں۔عطیات دینے والے ادارے توبہت ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا بہترین استعمال اور عوام تک کیسے پہنچائے جا سکتے ہیں؟ لاعلمی پر مبنی ان وجوہات کی وجہ سے زیادہ تر کوششیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
سی ایس آر کی ناکامی کی بہت سی وجوہات میں چند ایک درج ذیل ہیں :
1-خدمات کم ، اخراجات زیادہ:
پالیسی بنانے والے اپنے ذاتی مفادات کو اوّلین ترجیح دیتے ہیں۔لانگ ٹرم کی بجائے شارٹ ٹرم پالیسی پر کام کیا جاتا ہے۔ اپنی بات منوانے، حکمرانی کرنے اور حتیٰ کہ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے CSR میں مختلف اسکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں جس لوگوں کوفائدہ کم اور شہرت زیادہ وصول کی جاتی ہے۔
2- واضح مقصد کا فقدان:
CSR کے تحت کام کرنے والے افرادکا جذبہ تو بہت ہوتا ہے لیکن کوئی خاص پلاننگ نہیں ہوتی۔ وہ اپنی پروڈکٹ پیش کرتے ہوئے اِس بات کا خیال نہیں رکھتے کہ یہ لوگوں کے لیے منافع بخش یاان زندگیوں میں تبدیلی کا باعث ہو گایا نہیں؟
3- اقدار کی کمزوری:
بہت سی کمپنیوں کے فاونڈرزCSRکے تحت اخلاقی اقدار کا خیال نہیں رکھتے اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ ایسے لوگ طاقت کے نشے میں دھت غلط فیصلوں سے وسائل کو ضائع کر دیتے ہیں۔
4-اندھے پن کی دوڑ:
چیریٹی کرنے والے ادارے اپنے حریفوں سے بے خبر اور مارکیٹ ٹرینڈز سے نا واقف ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے وہ مارکیٹ میں اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ وہ ایسی کوششیں کر رہے ہوتے ہیں جو لوگوں کی زندگیوں میں کوئی خاص تبدیلی کا باعث نہیں بنتیں ۔
5- جدت کا فقدان:
CSRادارے اپنی پروڈکٹ میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے یعنی کوئی نئی پروڈکٹ پیش نہیں کرتے۔ وہ ایک قدم پیچھے چل رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی کوششیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
6- بے فائدہ مقاصد:
کچھ ادارے حاصل شدہ عطیات کولوگوں کی خدمت پر لگانے کی بجائے ذاتی اورادارے کی برانڈنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں،جس کی وجہ سے ڈونر یا چیریٹی دینے والے اُلجھن کا شکار ہو جاتے ہیں یا مزید پیسہ لگانا مناسب نہیں سمجھتے۔
7- خود انحصاری:
بعض ادارے خود ہی سب کچھ کرنا چاہتے ہیں،کسی سے مدد لینا اچھا نہیں سمجھتے۔ لوگوں سے تعلقات ہونے کے باوجود اُن کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں۔
8- معلومات کی کمی:
بعض اداروں کو معلوم نہیں ہوتا کہ اُنہوں نے کتنا کام کس طرح کر لیا ہے۔پلاننگ نہیں کی جاتی، مینجمنٹ سسٹم کا تجزیہ نہیں کیا جاتاحالانکہ کسی بھی ادارے کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے اعدادوشمار کا موجود ہونا بہت ضروری ہے۔
9- فنڈ جمع کرنے کے لیے غیر مناسب لوگوں کی تقرری :
فنڈ حاصل کرنے کے لئے نااہل لوگوں کی خدمات لیتے ہیں حالانکہ اس مقصد کے لیے مارکیٹنگ کے تجربہ کار ماہرین کو ہائر کرنا چاہیے۔سی ایس آر برا نہیں ہے لیکن یہ ناکام صرف اِس لیے ہو جاتا ہے کہ اِس کے لیے با مقصد پلاننگ نہیں کی جاتی۔ایک چیریٹی ڈونر کو ہمیشہ اُن لوگوں کو پیسہ دینا چاہیے جو لوگوں کے اچھے لائف سٹائل پر مستقل مزاجی سے کام کر رہے ہوں،تب CSRسے بہترہم نتائج حاصل کیے جاسکیں گے۔
Comments are closed.