لندن :آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین کی ا یک نئی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ والدین کو بچوں سے اوائل عمری ہی میں سوشل میڈیا سے متعلق بات کرنی چاہئے۔ ریسرچ کے مطابق لڑکوں کے مقابلے میں 11 سے 13 سال کی لڑکیوں پر سوشل میڈیا کے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ 14سے 15 کی عمر کے لڑکے یہ اثرات قبول کرنا شروع کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فرق ان کے دماغ کے اسٹرکچر میں تبدیلی یا ان کے کنوار پن کی وجہ سے ہو، جو لڑکوں میں لڑکیوں کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اسٹڈی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کم عمری یعنی 19سال کی عمر میں بچے خود مطمئن ہونے کیلئے سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے 19سال کی عمر میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ عمر بچوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت حساس ہوتی ہے۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے بچوں میں بے چینی اور ڈپریشن میں اضافہ ہوتا ہے۔
ماہرین نے یہ رائے قائم کرنے کیلئے 2ڈیٹا سیٹس استعمال کئے، جن میں 10سے 21سال عمر کے 17,400 افراد شامل تھے۔ اسٹڈی سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جن بچوں کی کم عمری میں تشفی نہیں ہوپاتی، وہ ایک سال بعد تک سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے نفسیات کی پروفیسر سارہ جین بلیک مور کا کہنا ہے کہ سن بلوغت ایک تبدیلی کازمانہ ہوتا ہے جبکہ ہارمونز اور دماغ کے علاوہ نفسیاتی طور پربھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل ورلڈ سن بلوغت میں بڑی تبدیلی پیدا کرتا ہے، اس دور میں ہم پرائمری اسکول سے سیکنڈری اسکول میں جا رہے ہوتے ہیں، بہت سے لوگوں سے ہمارا تعلق بنتا ہے اور ہمارے بڑے سن بلوغت میں بچوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور نوجوان پیچیدہ اور سوشل تبدیلیوں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
یہ زندگی کا انتہائی حساس دور ہوتا ہے، اس دور میں سوشل میڈیا اس کوبڑھاوا دیتا ہے۔پروفیسر بلیک مور کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا ایک پیچیدہ چیز ہے اور اسے بہتری کیلئے استعمال کئے جانے پر مجبور کیا جانا چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوجوان دن میں اسکول اور اسکول کے بعد کی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے دوستوں سے رابطے کرتے ہیں اور سوشل میڈیا چیک کرتے ہیں، یہ کام عام طور پر شام یا رات گئے کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نیند سن بلوغ کوپہنچنے والوں کی صحت اور بہتر موڈبنانے کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کی ڈاکٹر ایمی اوربن کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اور ذہنی صحت بہت پیچیدہ عمل ہے۔
Comments are closed.