بحیثیت مسلمان دین سیاست سے زیادہ اہم ہونا چاہئے مسجد نبوی کی چار دیواری حرم میں شامل ہے اور یہ میں نے آپ نے یا تاجے حوالدار نے نہیں بتایا بلکہ رب کائنات نے طے کیا ہے اور اسی نے اس کی حدود مقرر کر رکھی ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بھی اونچی آواز پر گفتگو پر گرفت کی گئی میں اور آپ تو کسی کھاتے میں ہی نہیں آتے ۔
ایک سعودی وزیر نے اس پر وضاحت بھی پیش کر دی ہے لیکن سعودی وزیر نے یہ نہیں بتانا کہ حرم کس جگہ سے لیکر کس حد تک کو قرار دیا گیا ۔
اس نے ایک بات کی وضاحت کرنی ہے سو کر دی تا کہ لوگ متنفر نہ ہوجاہیں جیسا کے فضا بن چکی ہے ۔ اگر اسکی وضاحت سو فیصد درست اور حقائق پر مبنی ہے تو پھر اور اس کے بعد عوزہ رسول کے گرد رکاوٹیں لگا کر وہ جگہ کیوں سِیل کر دی گئی جہاں جا کر لوگ عقیدت کیساتھ درود و سلام پیش کرتے تھے۔
بحرحال یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ایسے عمل کو کنڈیم کرتے ہین یا نہیں جو عمران خان کے ساتھ ۲۰۱۹ میں ہوا تھا تب بھی یہ ایک شرمناک واقع تھا گو کہ کعبہ مین باآواز بلند عبادت کا حصہ بھی احکام شریعت میں سے ہے “ پھر بھی کسی صورت بھی وہ عمل جائز نہیں تھا جو عمران خان کیساتھ ہوا “
تب بھی میں نے اسے غلط کہا اور اسی کو بنائے استدلال بناتے ہوئے کل کے واقع کو بھی غلط کہا کیونکہ ایسا ہونا ہی غلط ہے اس کا ہر حال میں مذمت کرنا بنتا ہے نہیں تو کل کو اسی کو جواز بنا کر مخالفین ایسا کریں گے تو یہ کہا جائیگا کہ اللہ نے اپنے گھر بلا کر ذلیل کیا کچھ تو ہوش کے ناخن لیں۔
کھلے دل اور خصوصاً سب سے پہلے مسلمان بن کر سوچنا چاہئے نہ کے پارٹی بن کر کہ ہم جا کس طرف رہے ہیں۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں اگر ہمارا والد بھی اونچی آواز سے کسی کیساتھ پیش آئے تو اسے بھی روکا جائیگا اور مقام نبوت واضع کیا جائیگا۔
جو بھی نبی کریم علیہ الصلوٰاۃ والسلام کی برزخی زندگی روزہ رسول علیہ السلام کی حرمت سے واقف ہے وہ اس کو کبھی بھی درست نہین کہہ سکتا چاہے یہ کام نواز شریف کے ساتھ ہو شہباز شریف کے ساتھ ہو زرداری کیساتھ ہو الطاف حسین کیساتھ ہو یا عمران خان کیساتھ یہ عمل ہر گز ہر گز قابل قبول ہے ہی نہین سب کے سب نبی مکرم علیہ الصلواۃ والسلام کی عزت و احترام کے حوالے سے ایک ہی پلڑے میں گنے جائینگےاس عمل کا ساتھ صرف وہی لوگ دے سکتے ہیں جن کا دین کے بارے میں علم ناقص ہے یا باالکل دین کو فیشن کے طور ہر استعمال کرتے ہیں ۔
مجھے آخر میں صرف اتنا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی لیڈر ہو نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روزہ اقدس کے گِرد زمین پر پڑی دھول کی بھی دھول کے برابر نہیں۔ لیڈر سے وابستگی میں احکام شریعت کو تار مت کیجئے اور سیاسی لیڈر کو عیوب سے پاک مت گردانیے کیونکہ عیب سے پاک صرف حق تعالیٰ کی ذات والا صفات ہے ۔ یعنی یہ ضرور دیکھ لیجئے کہ آپ کے عقائد لیڈر کے بارے میں کسی نہ کسی طور پر شرک کے ذمرے میں تو نہیں آ رہے اگر ایسا ہے تو اپنے ایمان کا تجزیہ کیجئے کہ آپ کس چوراہے پر کھڑے ہیں۔
Comments are closed.