لندن:منسٹری آف ڈیفنس نے کہا ہے کہ بارڈر فورس نے اتوار کو انگلش چینل سے مائیگرنٹس کے متعدد گروپس کو پکڑا ہے۔ منسٹری آف ڈیفنس (ایم او ڈی) نے کہا کہ اس نے انگلش چینل میں سات کشتیوں کی نشان دہی کی تھی، جس میں254مائیگرنٹس سوار تھے۔ تاہم اس کا کہنا ہے کہ اسے یقین نہیں ہے کہ کوئی بھی مائیگرنٹ ایک چھوٹی بوٹ میں اپنی شرائط پر آیا ہو۔ حکومت کا کہنا ہےکہ وہ مائیگرنٹس کے انگلش چینل عبور کرنےکے بڑھتے ہوئے مسئلے سے نمٹنے کیلئے پیپلز سمگلرز کے خلاف کریک ڈائون کر رہی ہے۔ یہ یقین کیا جاتا ہےکہ11دنوں میں یہ پہلی انگلش چینل کراسنگ ہے۔ کچھ مبصرین نے تجویز کیا ہے کہ اسائلم سیکرز کو روانڈا بھیجے جانے کا امکان پہلے سے ہی ایک انگبلش چینل کراسنگ کیلئے ایک رکاوٹ کے طور پر کام کر رہا ہے لیکن انگلش چینل میں گزشتہ 11 روز سے موسم تندو تیز اور تلاطم خیز ہے۔
اس کے بڑے اثرات ہونے کے امکانات ہیں۔ گزشتہ ماہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اعلان کیا تھا کہ وزارت دفاع نے چھوٹی کشتیوں کے انگلش چینل کراسنگ پر آپریشنل رسپانس کی کمان سنبھال لی ہے۔ مائیگرنٹس کی اس نئی کھیپ کو پکڑنے کے حوالے سے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے منسٹری آف ڈیفنس نے کہا کہ انگلش چینل کراسنگ میں اضافے کو خطرناک اور ناقابل قبول قرار دیا۔ ایم او ڈی کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ ناصرف ہمارے امیگریشن قوانین کا کھلم کھلا غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ برطانیہ کے ٹیکس دہندگان پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ اپنی زندگیوں کو اس طرح سے خطرے میں ڈالتے ہیں اور محفوظ اور قانونی راستوں سے مائیگرنٹس کے برطانیہ آنے میں مدد کرنے کی ہماری صلاحیت کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
یہ فیصلہ چھوٹی کشتیوں سے انگلش چینل کراسنگ میں زبردست اضافے کے بعد کیا گیا ہے۔ سال رواں میں اب تک 6000 سے زائد افراد انگلش چینل عبور کر چکے ہیں۔ ہوم آفس کے تازہ ترین اعداد و شمار میں پتہ چلتا ہےکہ 2021 میں 28526 افراد نے انگلش چینل کو چھوٹی کشتیوں کے ذریعے عبور کیا تھا جبکہ یہ تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں 8466 تھی۔ فرانس اور دیگر یورپی ملکوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے سے نمٹنے کی کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ ہوم آفس اور فرانسیسی حکومت کے درمیان اس بات پر تنازع ہے کہ انگلش چینل کراسنگ کرائسس کے بحران کا بہترین رسپانس کیسے دیا جائے۔ گزشتہ سال کے آخر میں ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے متنبہ کیا تھا کہ مائیگرنٹس کے انگلش چینل عبور کرنے کے بحران کا حل تلاش کرنے میں یورپ کی ناکامی ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ان کا یہ بیان 27 افراد کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا تھا، جن کی کشتی فرانس سے برطانیہ جاتے ہوئے انگلش چینل میں ڈوب گئی تھی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 2014 میں جب سے ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے، یہ ایک دن میں سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔ منسٹری آف ڈیفنس کو آپریشنل کنٹرول دینے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت نے یہ انکشاف کیا کہ وہ انگلش چینل عبور کرنے والے کچھ اسائلم سیکرز کو یک طرفہ ٹکٹ پر روانڈا بھیجنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس سکیم کے تحت یکم جنوری کے بعد، جو لوگوں کے برطانیہ میں داخلے کو غیرقانونی خیال کیا جائے گا تو ان کو وہاں بھیج دیا جائے گا، جہاں انہیں ایسٹ افریقی ملک میں رہنے کے حق کیلئے درخواست دینے کی اجازت دی جائے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی یہ پالیسی پیپلز اسمگلرز کیلئے ایک بڑا دھچکہ ہوگی اور اس سے برطانیہ میں خطرناک روٹس میں لوگوں کو مرنے سے روکا جا سکے گا لیکن اپوزیشن جماعتوں، چیرٹیز اور چرچ آف انگلینڈ نے حکومت کی اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے اسے ظالمانہ قرار دیا۔ 160 سے زائد چیرٹیز اور کمپین گروپس نے ایک کھلے خط میں وزیراعظم بورس جانسن اور ہوم سیکرٹری مس پریتی پٹیل پر زور دیا ہے کہ وہ ان شرمناک حد تک ظالمانہ پالیسیز کو ختم کریں۔
کنٹربری کے آرچ بشپ جسٹن ویلبی نے اپنے ایسٹر سنڈے کے خطبے کا استعمال کرتے ہوئے اس معاملے پر بات کی اور اس پالیسی پر سنگین اخلاقی سوالات اٹھائے تھے اور اس سے پہلے انہوں نے اس سکیم کو خدا کی فطرت کے خلاف کہا تھا۔ ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے اسائلم سیکرز کو روانڈا بھیجنے کے حکومتی منصوبے کے بارے میں ناقدین پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ناقدین خود کوئی بھی حل پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دریں اثنا سکیم کی ممکنہ لاگت اور افادیت کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ سابق وزیراعظم تھریسا مے، جنہوں نے خود ہوم سیکرٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دی تھیں، کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس پالیسی کی حمایت نہیں کی کیونکہ اس سکیم کی قانونی حیثیت، عملییت اور افادیت کے سٹینڈرڈز پر ان کے شدید خدشات ہیں اور وہ ان پر پورا نہیں اترتی ہے۔ مس پریتی پٹیل نے اس اسکیم کا دفاع کیا اور کہا کہ اس سکیم کا مقصد پیپلز ٹریفکرز کے بزنس ماڈل کو توڑنا، جانی نقصان کو روکنا اور حقیقی طور پر کمزور لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
Comments are closed.