شیر شاہ سوری: ریاضی کے ماہر بادشاہ جن کی پانچ سالہ حکومت پانچ صدیوں بعد بھی اچھی حکمرانی کا معیار ہے
وقار مصطفیٰ
دلی پر سکندر لودھی حکمران تھے جب فرید خان کو ان کے والد حسن خان نے اپنی جاگیر کا انتظام سونپا۔ تب انھوں نے اپنے والد کو ایک خط لکھا اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اس علاقے کو منظم اور پائیدارحکومت دیں گے۔
’عدل ہی اہم بنیاد اور ترقی کی جڑ ہے۔ ناانصافی حکومت کی بنیادوں کو کمزور کر کے قوم کو برباد کر دیتی ہے۔‘ وقائع نگار عباس سروانی کی کتاب ’تاریخ شیر شاہی‘ میں اشارہ ملتا ہے کہ ایسا فرید خان نے اپنے اس خط میں لکھا تھا۔
یہاں بات شیر شاہ سوری کی ہو رہی ہے اور یہ وہ نام ہے جو فرید خان کو مغل بادشاہ ہمایوں پر فتح پانے اور شمالی ہندوستان اور پھربنگال کا اقتدار سنبھالنے پر ملا۔
سروانی لکھتے ہیں کہ ’فرید نے کاشتکاری کے طریقے، لگان کی شرح اور وصولی کا انتظام مکمل طور پر تبدیل کرنے کا ارادہ کر لیا اور اصلاحات کے لیے کئی قانون بنائے۔
انھوں نے اعلان کیا کہ کسان ہی ملک کی خوشحالی کا سرچشمہ ہیں۔ اگر ان کی حالت خراب رہے گی تو وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکیں گے اور اگر وہ خوشحال ہوں گے تو زیادہ پیداوار ہو گی۔‘
تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ شیر شاہ نے اپنے ابتدائی دنوں ہی سے کسانوں کو ترجیح دی۔
اپنی کتاب ’دی لاسٹ سپرنگ: دی لائیوز اینڈ ٹائمز آف دی گریٹ مغلز‘ میں ابراہام ایرالی نے لکھا کہ شیرشاہ کا ماننا تھا کہ جہاں کسان برباد ہوتا ہے، بادشاہ برباد ہوتا ہے۔ انھوں نے یقینی بنایا کہ کسانوں کے محافظ، فوج اور محکمہ مال کے اہلکار، ان پر ظلم نہ کریں، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے۔‘
انھوں نے کاہل اور بدعنوان اہلکاروں کو ختم کر دیا جنھوں نے ایک ہاتھ سے حکومت اور دوسرے ہاتھ سے کسانوں کو لوٹا۔
انھوں نے حکم دیا کہ مالیہ جمع کرنے والوں کے کھاتے اچانک دیکھے جائیں۔ اس سے پہلے کہ گاؤں کے سربراہ کو اس طرح کے چھاپے کا علم ہو گاؤں سے متعلقہ کاغذات کو ضبط کر لیا جائے۔
شیر شاہ نے قحط سالی جیسی قدرتی مصیبت سے مقابلہ کرنے کا ایک راستہ منتخب کیا۔ وہ کسانوں سے ایک بیگھا زمین پر ڈھائی سیر اناج وصول کرتے تھے، تاکہ کسی بھی مصیبت سے بآسانی مقابلہ کیا جا سکے۔
شیر شاہ کے مقرر کردہ فصل کے نرخ ابوالفضل نے بھی بتائے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سوری ہندوستان کو محصولات کے انتظام کو ضبط کے تحت لائے۔
رائے (فصل کے نرخ) ان زمینوں کے لیے مقرر کیے گئے جو ’پولاج‘ (مسلسل کاشت کے تحت) یا ’پاراوتی‘ (بہت کم غیر کاشت شدہ) تھیں۔ یہ نرخ پیداوار کی مقدار پر منحصر تین شرحوں پر مبنی تھی: اچھی، اوسط یا کم۔ ان کی اوسط پیداوار کی عام شرح قرار پاتی اور اس رقم کا ایک تہائی ٹیکس مقرر کیا جاتا۔
ٹیکس کی تشخیص کے وقت نرمی دکھائی گئی لیکن وصولی کے وقت کسی قسم کی رعایت کی اجازت نہیں دی گئی۔
اریخ دان آروی سمتھ شیر شاہ کو ایک دور اندیش بادشاہ کہتے ہیں کہ جنھوں نے نہ صرف کلکتہ سے پشاور(یا پشاور والوں کے مطابق پشاورسے کلکتہ) تک جرنیلی سڑک بچھائی بلکہ مسافروں کی سہولت کے لیے اسے درختوں، کنوؤں اور سراؤں کے ساتھ ساتھ پولیس چوکیوں سے بھی آراستہ بھی کیا۔
یہ طویل راستہ اپنے پانچ سال کے مختصر دورِ حکومت کے دوران مکمل کرنا ان کے تدبر اور انتظامی مہارت کی ایک مثال ہے۔ یہاں تک کہ انگریزوں نے ایک مربوط ملک گیر رابطہ قائم کرنے کے لیے گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ کا استعمال کیا۔
تقریباً 1700 سرائے بنوائے اور ودیا بھاسکرکے مطابق ہر سرائے میں ہندوؤں اورمسلمانوں کے لیے قیام وطعام کا الگ الگ انتظام تھا۔ ہرمسافر کو سرکار کی جانب سے کھانا وغیرہ مفت ملتا تھا۔
مسافر خانوں کے اردگرد لوگوں کی آبادی بس گئی تھی، کسان اپنا اناج فروخت کرنے وہاں آیا کرتے تھے۔
ایرالی نے سروانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’شیر شاہ کے دورِ حکومت میں مسافر ویرانے میں بھی رکنے سے نہیں ڈرتے تھے۔ وہ رات کو ہر جگہ، ویران یا آباد بغیر کسی خوف کے ڈیرے ڈالتے: اپنا مال و اسباب میدان میں رکھ دیتے، اپنے خچر چرنے کو چھوڑ دیتے اور خود آرام سے اور بے فکری کے ساتھ سوتے، جیسے اپنے گھر میں ہوں اور زمیندار(علاقے کے حاکم)، اس خوف سے کہ مسافروں کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور اس وجہ سے انھیں تکلیف ہو یا گرفتار کر لیا جائے، ان پر نظر رکھتے۔‘
حکام کو ان کے علاقوں میں ہونے والے جرائم کا حساب دینا پڑتا اور وہ متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے ذاتی طور پر پابند تھے۔
عباس خان سروانی بتاتے ہیں کہ گاؤں کے ’مقدم‘ (سربراہ) کے فرائض گاؤں کے مالیات کے انتظام سے بہت بڑھ کر تھے۔ ان کے گاؤں کے اندر یا اس کے آس پاس ہونے والے کسی بھی جرم کے لیے اسے جوابدہ ٹھہرایا جاتا تھا۔ مسافروں کی چوری یا قتل کے معاملات میں، وہ مجرموں اور چوری شدہ سامان کو پیش کرنے کے پابند تھے۔
اس سخت اصول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سروانی نے لکھا ہے کہ ’ایک بوڑھی اور ناتواں عورت بھی اپنے سر پر زیوارت کی ٹوکری رکھ کر سفر کر سکتی تھی اور شیر شاہ کی سزا کے ڈر سے کوئی چور یا لٹیرا اس کے نزدیک نہیں آسکتا تھا۔‘
عرفان حبیب اسے امن و امان برقرار رکھنے کا ایک ’کھردرا اور تیار‘ نظام قرار دیتے ہیں، جسے مغلوں نے جاری رکھا۔
شیر شاہ مکمل طور پر عملیت پسند تھے۔ سلطنت کے مختلف صوبوں کے درمیان آزاد تجارت کا آغاز ہوا، جیسا کہ ایرالی ہمیں بتاتے ہیں کہ ’امن و سلامتی کے ساتھ خوشحالی آئی۔‘
وہ ’پیسے کا باپ‘ مشہور تھے اور ریاضی کے ماہر تھے۔ پہلے اپنے والد کی جاگیر دیکھنے میں اور پھر سلطنت کے انتظام میں کوڑی کوڑی پرنگاہ رکھتے تھے۔ انھوں نے سکوں کے نظام کو بہتر بنایا، ان کا چاندی کا روپیہ ان کے بعد صدیوں تک ایک معیاری سکے کے طور پر جاری رہا۔
ڈاکٹر نوشاد منظر لکھتے ہیں کہ ’سونے، چاندی اور تانبے کے سکے بنائے۔ 167 گرام سونے کے سکوں کو اشرفی کہا جاتا تھا اور چاندی کا سکہ 175 گرام کا ہوتا تھا اسے روپیہ کہا جاتا تھا۔ یہی نہیں 322 گرام کے تانبے کے سکے بھی اسی زمانے میں شروع ہوئے جنھیں دام کہا جاتا تھا۔ شیر شاہ کے زمانے میں ایک روپیہ 64 دام کے برابر ہوتا تھا۔‘
شیر شاہ نے مؤثر اور دیانتدار انتظامیہ کو برقرار رکھا جبکہ عادی بدتمیز اور بار بار جرم کرنے والے حکام کو مثالی سزائیں دی گئیں۔
’داغ و چہرہ‘ کا نظام لاگو کیا جس میں گھوڑوں کو داغ کر اور فوجیوں کی شناختی فہرست بنا کر جعلی ادائیگیوں کی روک تھام کی گئی۔ اس سے جعلی بھرتیاں کرنے والے حکام کی بدعنوانی کی روک تھام اور فوج کی کارکردگی بہتر ہوئی۔
جب بھی ممکن ہوا، شیر شاہ نے ذاتی طور پر ’داغ و چہرہ’ کی نگرانی کی۔
ایک دفعہ ایک شخص نے دھوکے سے سپاہیوں کی حاضری سے گزرنے کی کوشش کی۔ وہ ان متعدد لوگوں میں سے ایک تھا جنھیں ایک رئیس نے جعلی طور پر بھرتی کر رکھا تھا۔
بادشاہ کو سپاہی کی چالاکی سے شک گزرا۔ دریافت کیا کہ اسے کہاں اور کس نے بھرتی کیا۔ سپاہی نے جھوٹ بولا کہ بادشاہ نے اسے خود مانک پور میں بھرتی کیا تھا۔ اسے شاید علم نہیں تھا کہ افسران تفصیلی ریکارڈ رکھتے ہیں، اس لیے مانک پور بھرتی کی تفصیلات بھی درحقیقت دستیاب ہیں۔
اس لیے اس سے کہا گیا کہ تاریخ اور وہ اس گاؤں کا نام بتائے جب اور جہاں اس کا انٹرویو ہوا تھا۔ ظاہر ہے وہ ناکام ہوا اور بادشاہ سے معافی کی درخواست کی۔
اس اہلکار کا نام ظاہر کرنے کی شرط پر اس سے معافی کا وعدہ کیا گیا، جس نے اسے جھوٹ بولنے کو کہا تھا۔
بالآخر، دھوکا دینے والے تمام افراد کو پکڑ لیا گیا۔ اس آدمی کو معاف کر دیا گیا تھا اور مناسب طریقے سے ایک سپاہی کے طور پر بھرتی کیا گیا۔
دھوکا اس مفروضے پر دیا گیا تھا کہ بادشاہ کے مانک پور کے معائنے کو دو سال گزر چکے ہیں، اس لیے حوالے کی تفصیلات دستیاب نہیں ہوں گی تاہم ریکارڈ بھی برقرار تھا اور اس کی فارسی اور ہندوی میں نقلیں بھی۔
ایک دورے کے دوران شیر شاہ نے دیکھا کہ ایک سوار واضح طور پر بے چین نظر آرہا تھا۔ انھوں نے اس آدمی کو گھوڑے سے اترنے کو کہا۔ حکم سے پریشان ہو کر وہ آدمی عجیب طرح سے گر پڑا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ وہ سپاہی ہے یا صرف گھوڑے پالنے والا کیونکہ لگتا تھا کہ وہ سواری میں ماہر نہیں۔
اس نے اعتراف کیا کہ درحقیقت وہ صرف ’چاروادار‘ (گھوڑے کو چارہ ڈالنے والا) ہے اور اسے ایک اہلکار نے باقاعدہ گھڑ سوار کا روپ دھارنے کے لیے معاوضہ دیا تھا۔ جعلی پیشکش کے مرتکب کو سزا دی گئی لیکن اس شخص کو معاف کر دیا گیا۔
شیر شاہ خود پرانے اور نئے بھرتی ہونے والوں کی اجرت طے کرتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر ایک نوجوان ایک اعلیٰ نسل کے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا۔ وہ نفاست کی تصویر تھا تاہم شیر شاہ نے اس کے لیے کافی کم معاوضہ مقرر کیا۔
ایک صوفی شیخ خلیل نے نوجوان کی سفارش کی اور کہا کہ وہ بہتر تنخواہ کا مستحق ہے۔
بادشاہ نے نوجوان سے کہا کہ وہ کمان کھینچے۔ وہ اسے اتنا نہ کھینچ سکا کہ تیر چلا سکے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو وہ بہت کمزور تھا یا مشق نہیں تھی یا وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اسے یہ کیسے کرنا ہے۔
اس کے باوجود صوفی نے دلیل دی کہ کمان شاید نئی اور سخت ہے اور اسی وجہ سے اسے صحیح طریقے سے نہیں کھینچا جا سکا۔
جواب میں شیر شاہ نے اپنی ذاتی کمان لانے کا حکم دیا۔ مشق میں باقاعدہ استعمال کی وجہ سے یہ نرم تھی لیکن وہ آدمی اس کو بھی کھینچنے میں ناکام رہا۔ اب صوفی نے کہا کہ یہ بھاری ہے اس لیے امتحان میں رکاوٹ ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے اسے ہلکا کرنے کی اجازت دے دی لیکن وہ پھر ناکام رہا۔
شیر شاہ نے نتیجہ اخذ کیا کہ امیدوار کی قابلیت اور خلوص کو جانچنے کے لیے امتحان منعقد کیے جائیں۔
نااہل افراد کو بھرتی کرنے سے نہ صرف فوج کی مجموعی طاقت پر سمجھوتا ہوتا ہے بلکہ ایسے افراد کی زندگی کو میدان جنگ میں معمول سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اچھے کپڑے پہنے شائستہ اور ملنسار لوگ بھی حیران کن ناکامی کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس طرح بادشاہ نے اس خیال پر زور دیا کہ امیدوار کی مناسبیت ایک بہت اہم عنصر ہے۔ مثال کے طور پر،خوبصورت نظر آنے والے ہونٹ اچھی بات کرنے کے لیے ضروری نہیں تاہم اگر کسی کو غازہ بیچنا ہو تو یہ بالکل ناگزیر ہو سکتے ہیں۔
شیر شاہ کی اصلاحات انتظامیہ اور سیاست میں ان کی مہارت کی گواہ ہیں۔ جوش و خروش ان کے طرزِ نظم و نسق کا ایک اہم عنصر تھا جو ان کی قابلیت کے ساتھ مل کر توانائی پیدا کرتا تھا۔۔۔ مثبت توانائی۔ شیر شاہ سوری کا کہنا تھا کہ صاحب اختیار انسان کو ہمیشہ مستعد اور سرگرم عمل رہنا چاہیے۔
’کارکنوں (کلرکوں)، چہرہ داروں (تفصیلی فہرستوں کی دیکھ بھال کرنے والے)، اسپ خانہ دار (اصطبل کے انچارج)، فیل دار (ہاتھیوں کے انچارج)، خزانہ دار (خزانچیوں) جیسے اہلکاروں کا سامان، تفنگ دار (اسلحہ کے منتظم)، کوتوال (امن و امان کے افسر)، شقدار (انتظامیہ کی ایک یونٹ کا انچارج افسر) اور منصف'(انتظامیہ کی ایک یونٹ کا جج) وغیرہ کے عہدے اچھے انتظام و انصرام کے لیے قائم کیے گئے۔ شقدارِ شِقداراں اور منصفِ مُنصفِاں اعلیٰ سطحی جائزے اور ماتحتوں کی نگرانی کے لیے مقرر کیے گئے۔
ودیا بھاسکر نے لکھا ہے کہ شیرشاہ کا کہنا تھا کہ بادشاہ کا فرض ہے کہ وہ اطمینان کر لے کہ اس کے وزیر او رحکام بددیانت نہ ہوں، رشوت لینے اور دینے والے تمام افسران اس قابل نہ ہوں کہ ملازمت میں ہوں۔ مجھے ایسے شخص کو اپنے قریب دیکھ کر نفرت ہوتی ہے جو رشوت لیتا ہے۔
شیر شاہ سوری نے عوام کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں انصاف دینے کا بھی ذمہ اٹھایا تھا۔ یہی سبب ہے کہ دیوان قضا کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا جس کا مقصد عوام کے مسائل کے ساتھ ان کو قانونی مدد فراہم کرنا تھا تاکہ رعایا کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔
شیر شاہ نے اپنے عہد میں محصولی نظام کو بھی درست کرنے کی پہل کی۔ انھوں نے مختلف اور پریشان کُن محصولی نظام کو آسان بناتے ہوئے کاروبار کے استعمال میں آنے والی اشیا پر سرحد ٹیکس اور فروخت کرنے کے مقام پر محصول لینے کا فیصلہ کیا۔
اس سے جہاں کاروباریوں کو مختلف قسم کے محصول دینے سے چھٹکارا ملا وہیں عوام کو یہ فائدہ ہوا کہ ضرورت کی چیزیں سستی ہو گئیں اور کاروباری نظام کو بہتر بنانے میں بھی اس سے مدد ملی۔
شیر شاہ سوری ادیبوں اور دانشوروں کی عزت کرتے تھے۔ ملِک محمد جائسی کی مشہور زمانہ کتاب ’پدماوت‘ اسی زمانے میں منظر عام پر آئی۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہم کتابیں اس دور میں شائع ہوئیں۔
ڈاکٹر منظر شیر شاہ کی مذہبی رواداری کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں کہ ’شیر شاہ سوری نے اپنے عہد میں زمینوں کی پیمائش کا کام بھی کیا۔ اس کے لیے انھوں نے ہندو برہمنوں کی خاص طور پر مدد لی۔
ان کے عہد میں کئی اہم عہدوں پر ہندو مذہب کے لوگ فائز تھے۔ یہاں تک کہ برہم جیت گوڑ، شیر شاہ کا سب سے لائق سپہ سالار تھا۔‘
تاریخ دان کالکا رنجن قانون گو نے لکھا کہ شیر شاہ کے عہد میں ہندوؤں کے ساتھ کسی قسم کا بھید بھاؤ نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی ان سے نفرت کی جاتی تھی، ان کو بھی وہی عزت حاصل تھی جو دیگر عوام یعنی مسلمانوں کو حاصل تھی۔
شیر شاہ 22 مئی سنہ 1545 کو ایک قلعے کے محاصرے کے دوران بارود کی آگ کے زخموں سے جان بر نہ ہو سکے اور یوں ایک مختصر مگر عظیم عہد کا اختتام ہوا۔
کالم نگار عرفان حسین نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا کہ ’ہم ہندوستان میں اچھی حکمرانی کے ابتدائی تصورات کے ساتھ انگریزوں کو جوڑنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہم اس انتہائی پرعزم حکمران کی منصفانہ اور اچھی حکمرانی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘
’شیر شاہ نے ثابت کیا کہ وہ ہندوستان کی طویل اور داغدار تاریخ میں سب سے کامیاب حکمرانوں میں سے ایک تھے۔ صرف پانچ سال حکومت کی لیکن تقریباً پانچ صدیوں قبل حکمرانی کے وہ معیار قائم کیے کہ ان کے بعد آنے والے اس عرصے میں بنی نوع انسان کی پیشرفت کے باوجود ان تک پہنچنے میں بڑی حد تک ناکام رہے۔‘
ان کے مخالف مغل بادشاہ ہمایوں انھیں ’استاد بادشاہان‘ یا بادشاہوں کے استاد کہتے تھے۔ آروی سمتھ کے مطابق ہمایوں کے بیٹے مغل شہنشاہ اکبر نے اپنی حکمرانی کے اصولوں کی بنیاد شیر شاہ کی پالیسیوں پر رکھی اور زبردست کامیابی حاصل کی۔
اپنی کتاب ’اگر تاریخ نے ہمیں کچھ سکھایا‘ میں فرحت نسرین لکھتی ہیں کہ اگرچہ شیر شاہ کا دور حکومت چند سال ہی رہا لیکن ہندوستان کے انتظامی نظام پر اس کا اثر دیرپا تھا۔
Comments are closed.