اس کی عمر صرف سولہ سال تھی جب اس کے کانوں نے اپنے سردار کے یہ الفاظ سنے:’’اپنی زمین اور اپناملک ہوتے ہوئے بھی ہم غلاموں جیسی زندگی گزاررہے ہیں۔‘‘لیکن یہ صرف الفاظ نہیں تھے بلکہ اس میں بیداری کا ایک ایسا پیغام پوشیدہ تھا جو اس کے دل کی زمین میں پیوست ہوگیااورپھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیج کونپل کی صورت اختیار کرنے لگا۔اس کے گھریلو حالات کمزور تھے۔وہ ایک خوش حال زندگی گزارناچاہتا تھا جس کے لیے تعلیم ضروری تھی۔اس مقصد کے لیے وہ شہر گیااور محنت شروع کی۔کرایہ بچانے کی خاطر وہ کئی کئی میل تک پیدل چلتا۔اس کا لباس کئی جگہ سے بوسیدہ ہوچکا تھا۔ایک دن بس میں بیٹھے ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص انجانے میں اس کے پاس آبیٹھالیکن جیسے ہی اس پر نظر پڑی تو فوراً اٹھ کر دوسری سیٹ پر بیٹھ گیا تاکہ اس کاکوٹ خراب نہ ہوجائے۔یہ حقارت آمیز رویہ اس کے دل پر لگا اورآزادی کاجو بیج اس کے دل میں پنپ رہا تھا، یکایک ایک تناوردرخت بن گیا۔ اس نے اس طبقاتی نظام سے چھٹکاراپانے کا پختہ ارادہ کرلیا اور آزادی کے لیے ایک طویل جدوجہدکا آغاز کرلیا۔اس سفر میں قدم قدم پر اس کو مشکلات اور مصائب کاسامنا کرنا پڑا۔کئی دفعہ گرفتار ہوااور اپنے مضبوط عزم کی بدولت رہاہوتارہالیکن پھر 1962ء میں سامراج نے اس بلند آواز کومکمل طورپردبانے کے لیے ایک بار پھر اس کو گرفتار کیا، اس پر مقدمہ چلا یاگیااور عمر قید کی سزا سناکر اس کو’’جزیرہ روبن‘‘ میں قید کرلیاگیا۔سال پر سا ل گزرتے گئے لیکن اس فولادی شخص کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔اسیری میں اس کے بال سیاہ سے سفید ہوگئے۔ہر طرح کی ظلم و زیادتی اور انتقامی حربوں کے بعد سامراجی نظام اس کے بلند حوصلے کے آگے ہارگیا اورایک طویل انتظار کے بعد اس کو آزادی مل گئی، لیکن اپنی استقامت کی بدولت وہ پوری دنیا کا مقبول ترین لیڈر بن چکا تھا۔
یہ عظیم انسان نیلسن منڈیلاتھا۔جس نے اپنی زندگی کے 27سال قید میں گزارے لیکن اپنی اُمید کو زندہ رکھا اور اس یقین کے ساتھ ہر طرح کے مظالم کو برداشت کیا کہ اس تاریک رات کے بعد سحرہوگی اور مجھے میری منزل ضرور ملے گی۔
منزل کیا ہے؟
منزل وہ ان دیکھا مقام ہے جس کو انسان اپنے تخیل کی طاقت سے بناتاہے۔منزل انسان کے شوق کو ورغلاتی ہے اور اس کے جذبوں کو بھڑکاتی ہے۔منزل اگرچہ موجود نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود بھی انسان کے اندر ایسی تڑپ پیدا کردیتی ہے کہ وہ اس کو پانے کے لیے دن رات ایک کردیتاہے، اپنا آرام وسکون قربان کردیتاہے اور بڑی سے بڑی قربانی کے لیے بھی تیارہوجاتاہے۔ منزل کو پالینے کی جستجو ایک بنیادی انسانی خواہش ہے،جس کی تکمیل میں وہ ایک کڑے اور کٹھن سفر کو اختیار کرتاہے۔انسان کی عمر چھوٹی ہو تو منزل بھی چھوٹی ہوتی ہے۔عمر بڑی ہوجائے تو منزل بھی بڑی ہوجاتی ہے اور پھر انسان کی سوچ جس قدر بڑی ہوتی جاتی ہے اس کی منزل بھی اسی قدر عظیم ہوتی جاتی ہے۔البتہ ایک بات تسلیم شدہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی منزل،انسان کی آخری منزل نہیں ہوتی بلکہ ایک منزل کا حصول دوسری منزل کی طرف بڑھنے کاحوصلہ بھی دیتا ہے۔
ایک شاعر اسی مفہوم کو کچھ یوں بیان کرتاہے:
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندرتلاش کر
انسان سمجھتاہے کہ اگر میں اپنی منزل پر پہنچ جائوں تو میری زندگی مکمل ہوجائے گی اور اس کے بعد مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن وہا ں پہنچتے پہنچتے اس کے دل میں ایک اور منزل بن چکی ہوتی ہے اوراب اس کے ارادوں اور عزائم کا رُخ نئی منزل کی طرف ہوچکا ہوتاہے۔
عقل مند کہتے ہیں کہ اگر راستہ خوب صورت ہو تو معلوم کروکہ کس منزل کوجاتاہے لیکن اگر منزل خوب صورت ہو تو راستے کی پروا مت کرو۔
اسی وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ منزل انسا ن کے جذبات اور عزائم کے لیے ایندھن کاکردار ادا کرتی ہے۔یہ اس کو چلاتی ہے۔اس کے اندر طلب اور تڑپ پیدا کرتی ہے۔یہ اس کو رت جگوں پر مجبورکرتی ہے۔یہ اس کے شوق کو برانگیختہ کرتی ہے۔منزل اپنے مسافر کی جانچ پرکھ کرتی ہے۔یہ کھرے اورکھوٹے کی پہچان ضرور کرتی ہے اور پھر جن کا عزم پختہ اور طلب سچی ہوتو یہ اس کے یقین کو بلند کرتی ہے اورکھلی بانھوں کے ساتھ اس کا استقبال کرتی ہے۔
منزل کو پانے کا یقین ہی تھا کہ ایک خراسانی بچہ روز کئی کلومیٹر تک اُستاد کے گھوڑے کے ساتھ پیدل چل رہاہوتااور ان سے علم حاصل کررہاہوتا۔اس کی طلب اتنی شدید تھی کہ اس نے موسم کی سختی،اپنی بے بسی اور تھکاوٹ کا بھی خیال نہیں کیااورکمفرٹ زون نہ ہونے کے باوجود بھی اس نے زیادہ سے زیادہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔اسی طلب نے اس کی تڑپ کو مزید بڑھاوا دیا،اس کے بعد بھی وہ علم حاصل کرنے کی جستجو میں لگارہا اور پھر اس کی کوششیں رنگ لائیں۔پہلے وہ ’’امام غزالی‘‘ اور اس کے بعدپوری اُمت کا’’حجۃ الاسلام‘‘ بن گیا۔
ٹونی رابنس کہتاہے:’’آپ کی منزل موجود ہے۔یہ بات آپ کے فیصلوں پر منحصر ہے۔‘‘
اگر آپ کے فیصلوں میں امام غزالی کی طرح یقین کی پختگی اور اعتماد کی چاشنی موجود ہے توپھر منزل بھی آگے بڑھ کر آپ کااستقبال کرتی ہے وگرنہ صرف باتیں کرنے اور خیالی پلائو پکانے سے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
منزل ہم سب کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے کیوںکہ دنیا میں آنے والاانسان دراصل ایک سفر پر آتاہے اوریہ بات توہر شخص تسلیم کرتاہے کہ ہرسفر کی ایک منزل ہوتی ہے۔اب اگر کسی انسان کی زندگی میں منزل نہ ہوتو اس کا مطلب ہے کہ اس کا سفر ضائع گیا۔معروف دانش ور’’سنیکا‘‘کہتاہے کہ اگر تم نہیں جانتے کہ تمھیں کس ساحل کا رُخ کرنا ہے تو کوئی بھی ہوا تمھارے کام کی نہیں ہے۔
البتہ جن لوگوں کی زندگی میں منزل موجود ہو تو اس کو پانابھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔دُنیا میں ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ایسے ہی منزل پر پہنچنے کی بھی ایک قیمت ہوتی ہے۔یہ اسی کو ملتی ہے جو اس کی طرف رخت سفر باندھ کر نکل کھڑاہوتاہے۔جو اس کے لیے اس قدر جنونی ہوتاہے کہ اسے پائے بغیر اس کو قرارنہیں ملتا۔اس سفر پر وہ بغیر زادراہ کے بھی نکل پڑتاہے۔ایسا مسافر صحراکی جھلسادینے والی ریت میں بھی اپنا سفر جاری رکھتاہے۔اس کے پائوں کے چھالے بھی اس کو سفر سے نہیں روک سکتے۔تپتا سورج بھی اس کے حوصلوں کو مات نہیں دے سکتا۔سفر کی طوالت بھی اس کے جذبوں کو ماندنہیں کرسکتی۔وہ شکست خوردہ نہیں ہوتا، حوا س باختہ نہیں ہوتااور نہ ہی اپنی منزل سے دستبردار ہوتاہے۔یہ جذبہ، یہ عزم،یہ قربانی قدم قدم پر اس کے حوصلوں کو بڑھاتی ہے اوراس کو منزل کے قریب کرتی ہے۔
دنیا میں موجود ہر انسان بااختیار بھی ہے اور بے اختیار بھی۔تقدیر کے معاملے میں وہ بے اختیار ہے۔جو اس کی تقدیر میں لکھاہووہ اس کو بدل نہیں سکتالیکن ایک چیز اس کے اختیار میں ہے۔وہ اس بات کا فیصلہ کرسکتاہے کہ اس کی منزل کیا ہوگی۔منزل پانے کے لیے وہ خواب دیکھ سکتاہے اور ان خوابوںمیں اپنی مرضی کا رنگ بھرسکتاہے۔
دنیا میں رہتے ہوئے ہم بہت سارے لوگوں سے متاثر ہوتے ہیں۔کسی کاکردار ہمیں بھاتاہے، کسی کی تحریر ہمیں اچھی لگتی ہے تو کسی کی تقریر۔یہی انسپائریشن وہ چیز ہے جو انسان کے اندر منزل پانے کی چنگاری روشن کرتی ہے۔جب وہ کسی سے انسپائر ہوتاہے تو اس کے دل میں بھی ایسی ہی ایک منزل پانے کی خواہش سراُبھارنے لگتی ہے۔یہ خواہش بار بار اس کے دل و دماغ پر دستک دیتی ہے۔اس کادماغ اس کو حاصل کرنے کی ترکیبیں سوچنا شروع کرتاہے۔یہ ترغیب،تحریک میں بدلتی ہے اور وہ منزل کو پانے کے لیے عملی جدوجہد شروع کرلیتاہے۔
منزل پر پہنچنے کے لیے دوسری اہم چیز پلاننگ ہے۔پلاننگ کی بدولت انسان اپنے وقت اور توانائی کو بہترین انداز میں صرف کرسکتاہے لیکن اگر پلاننگ نہ ہوتو پھر کوشش ضائع ہونے کا خطرہ ہوتاہے اورنتائج ملنے میں ایک وسیع خلا پیدا ہوجاتاہے جو انسان کو نفسیاتی طورپر متاثر کرتاہے اور عین ممکن ہے کہ وہ مایوس ہوکر اپنا ارادہ ہی بدل دے۔
نپولین ہل نے اپنی کتاب Think & Grow Richمیں دنیاکی کامیاب ترین شخصیات کی جن مشترکہ عادات کا ذکر کیا ہے ان میں ایک عادت Burning Desireبھی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک چیز پانے کی خواہش اس قدر شدید ہو کہ وہ آگ کی صورت میں اس کے سینے میں جل رہی ہو۔ وہ اس کو کسی پل چین لینے نہ دے۔اس کو ہر وقت یہ فکر ہو کہ میں کیسے اپنی منزل کے قریب ہوسکتاہوں اور اسے پاسکتاہوں۔کسی بھی منزل کو پانے کے لیے انسان اگر اپنے اندر یہ خوابی پیدا کرلے تو پھر قدرت بھی اس کی مددگار ہوتی ہے اور اس کی کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔
Burning Desire
انسان کو استقامت کی خوبی سے نوازتی ہے اوراستقامت وہ عادت ہے جوپہاڑوں کو بھی انسان کے تابع کردیتی ہے۔
ہوانگ دافا ایک چینی باشندہ ہے۔اس کے گائوں میں پانی کی شدید قلت ہوگئی۔آس پاس میں کوئی نہر، چشمہ اور کنواں نہیں تھا۔اس نے گائوں کے لیے10کلومیٹر طویل ایک نہر کھودنے کاارادہ کیا۔نہر کھودنا شاید زیادہ مشکل نہ ہوتالیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس نہر کے درمیان تین پہاڑیاں آرہی تھیں۔گائوں والوں نے توفوراً کہہ دیا کہ یہ ناممکن ہے لیکن وہ باہمت شخص لگارہا۔اس نے1959ء میں اس کام کا آغاز کیا۔ 36سال تک اس نے اپنی محنت جاری رکھی۔بالآخر 1995ء میں وہ گائوں تک پانی لانے میںکامیاب ہوگیا اوراستقامت کے اس جذبے نے اس کو سب کے لیے ایک شاندار مثال بنادیا۔
منزل کو پانے میں یقین کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔دنیا میں کوئی بھی چیز پہلے انسان کے ذہن میں بنتی ہے پھر دنیا میں وجود میں آتی ہے۔اب جس انسان کایقین جس قدر پختہ ہوتاہے منزل بھی وہ جلدی پالیتاہے۔
انسان کی منزل کی عظمت اس کے کردار و اخلاق پر اثرانداز ہوتی ہے۔’’بڑی منزل کا مسافر‘‘ اعلیٰ ظرف ہوتاہے۔یہ اعلیٰ ظرفی اس کواخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کردیتی ہے اور دوست تو دوست، دشمن بھی اس کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔اس راستے میں وہ چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور جھگڑوں کی پروا نہیں کرتا۔وہ آگے بڑھنے پر یقین رکھتاہے۔معافی اس کی خاص خوبی ہوتی ہے۔ دوسروںکو معاف کرکے اور ان سے معافی مانگ کروہ خود کو آزاد کرتاہے۔وہ اپنے خیال و سوچ کا بھی دھیان رکھتاہے۔وہ ماضی کے بوجھوں کو اپنے اوپر نہیں لادتااور نہ ہی مستقبل کے اندیشوںکو اپنے ذہن پر سوار کرتاہے۔اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھتے ہوئے وہ ہر ایک کی خیرخواہی چاہتاہے۔وہ ہر انسان کی قدر کرتاہے۔وہ بحث ہارکر بندہ بچانے کوترجیح دیتاہے۔وہ خالق اور مخلوق دونوں کاشکرگزار ہوتاہے اور یہ تمام وہ صفات ہوتی ہیں جو حقیقی معنوں میں اس کو ’’مثالی انسان‘‘ بنادیتی ہیں۔اس کی طلب اور تڑپ میں اتنی شدت ہوتی ہے کہ پھر کائنات بھی اس سازش میں شریک ہوجاتی ہے اور منزل کواس کے قریب لے آتی ہے۔
Comments are closed.