اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ وقتی طور پر ایک بحران ٹل گیا لیکن آئی ایم ایف نے جن شرائط پر قرض دیا وہ پاکستانی معیشت کا پہیہ جام کرنے کا باعث بنی ہیں۔ مہنگی بجلی اور گیس کی بدولت ہماری صنعتیں رفتہ رفتہ نہ صرف بند ہوجائیں گی بلکہ صنعت کار دوسرے ممالک میں منتقل ہوجائیں گے۔تیزی سے فروغ پذیر آئی ٹی انڈسٹری پر ٹیکس لگانے سے نوجوان آئی ٹی ماہرین مایوس ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ یا تو وطن سے کوچ کرجائیں گے یاپھر بیرون ملک سے ترسیالات زر کے لیے کسی اورملک میں بینک کھاتے کھول لیں گے۔ پٹرول کی قیمت میں بے تحاشا اضافے نے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے محابا اضافہ کردیا۔رسل ورسائل مہنگے ہونے کے باعث شہریوں کی معمول کی آمد ورفت کم ہوگئی ہے۔ بازار سنسان ہیں اور مارکیٹوں میں گاہگ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ عام شہری نے غیر ضروری تودرکنار ضروری سفر بھی ترک کردیا ہے۔اشیاء صرف کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔
آئی ایم ایف نے ایک طرح سے ہماری معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کے امکانات معدوم ہوچکے ہیں۔کاروبار سکڑ رہے ہیں۔ مغربی ممالک کے سفارت خانوں کے سامنے لگی بھیڑ اس حقیقت کا پتہ دیتی ہے کہ تعلیم یافتہ ، ہنرمند نوجوان اور متمول خاندان تیزی سے ملک سے بھاگ رہے ہیں۔
گزشتہ چھ ماہ سے جاری سیاسی ہنگامے نے ہر ادارے کو بے توقیر کردیا ہے۔ سیاست دان تو پہلے ڈس کریڈٹ ہوچکے تھے۔ اب الیکشن کمیشن اور دیگر اعلیٰ ادروں کی بڑی بے باکی سے بھد اڑائی جاتی ہے۔ قومی سلامتی کے اداروں کے سیاسی کردار کے بارے میں نت نئے انکشافات نے سیاسی درجہ حرارت کو مزید بڑھادیا ہے۔ اب پنجاب کے ضمنی الیکشن ایک نیا طوفان اٹھانے کو ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے منحرف ارکان کو نون لیگ نے’’ گود‘‘ لے لیا ۔ نون لیگ کے جو لیڈر گزشتہ چار برسوں سے پی ٹی آئی کی حکومت اور منتخب ارکان کے خلاف سیاسی مزاحمت کررہے تھے وہ محو حیرت ہیں ۔رنجیدہ ہیں لیکن پارٹی نظم کی بدولت لب کشائی کے لیے مناسب وقت کا انتظارکررہے ہیں۔بازار سیاست کو قرارملتانظر نہیں آتا۔محاذ آرائی، کشیدگی اور تلخی قومی منظر نامہ پر چھائی ہوئی ہے۔ سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ظاہر ہے کہ اگلے برسوں میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ان حالات میں بیرونی دنیا سے سرمایہ کاری کرنے کوئی آئے گا نہ مقامی سرمایہ کار اپنی تجوریوں کے منہ کھولیں گے۔عاقبت نااندیش سیاستدانوں اور طاقت ورحلقوں کے اشراک نے پاکستان کوایک گہری دلدل میں پھنسا دیاہے۔ لیکن ان کا کیا جاتاہے!
شہریوں کے چولہے بجتے ہیں یا دو وقت کا نوالہ چھن جاتاہے۔ اس کا ہماری بے رحم اشرافیہ کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا نہ انہیں اس کرب کا احساس ہوتاہے۔ وہ ایک الگ جزیرہ کی مخلوق ہیں۔ بائیس کروڑ کے اس ملک میں چند لاکھ افراد سارے ذرائع پیدوار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ایوب خان کے زمانے میں انہیں بائیس خاندان کہاجاتاتھا۔ وہی سرکاری وسائل پر بھی قابض ہیں اور ان سے ایک دوسرے کو مستفید کرتے رہتے ہیں۔ سرکاری دفاتر میں ہرسو مخلوق خدا ذلیل وخوار ہوتی نظرآتی ہے۔ وزرائ، اوراعلیٰ حکام کے ٹھنڈے ٹھار دفتروں اور گھروں میں مہنگائی کا رونا رویا جاتاہے اور نہ لوڈشیڈنگ سے ان کے اہل خانہ کوئی زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔ راوی چین ہی چین لکھتاہے۔
اردو نیوز جدہ کے رائے شاہنوازنے چند دن قبل بڑی تحقیق کے بعد سرکاری عہدیداروں کے وسیع وعریض بنگلوں کے عنوان سے ایک ہوش ربا کہانی شائع کی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کے سرکاری نظام میں کچھ عہدے ایسے ہیں جن پر تعیناتی سے ملنے والی مراعات اور رہن سہن انیسویں صدی کے برصغیر کے کسی راجے سے کم نہیں۔ اس وقت صوبہ پنجاب میں سب سے بڑی رہائش گاہ کمشنر سرگودھا کا سرکاری گھر ہے جو سرکاری کاغذات کے مطابق 104 کنال یعنی 13 ایکٹر پر پھیلاہواہے۔ دوسری بڑی سرکاری رہائش گاہ ڈی سی ساہیوال کی ہے جو کہ 98 کنال پر محیط ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 403 ارب 11 کروڑ روپے مالیت کی 8 ہزار 975 کنال اراضی پر عالی شان سرکاری رہائش گاہیں اور بنگلے قائم ہیں۔
جدید مغربی معاشروں میں حکمرانوں اور حکام کا طرززندگی اس کے بلکل برعکس ہے۔ برطانیہ اور جرمنی کا شمار چند عشرے قبل تک دنیا کی سپرپاورز میں ہوتاتھا اور اب بھی وہ دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں شامل ہیں۔لیکن ان کے سیاستدان اور حکام سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ سرکاری وسائل کو ذاتی کروفر پر صرف کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ بھارت کے حکمران، حکام، جج اور جنرل ماروتی گاڑی استعمال کرتے ہیں۔گوگل یا یوٹیوب پر دیکھیں تو یہ گاڑی بہت بھدی نظرآتی ہے لیکن کسی میں جرأت نہیں کہ شہریوں کے ٹیکس سے جمع ہونے والا پیسہ اللے تللوں پر اڑائے۔ دوسری جانب بھارت کے خزانہ میں 600ارب ڈالر پڑے ہیں۔اس کے برعکس ہمارے پاس بمشکل 16ارب ڈالر۔لیکن ہمارے ٹھاٹ بھاٹ دیکھ کر دنیا حیران رہ جاتی ہے۔
لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ اب پاکستان کے حکمران طبقہ کو شہریوں کی مشکلات کا احساس کرنا ہوگا۔کمر توڑ مہنگائی سے عوام جاں بلب ہیں۔ سری لنکا کے عوام حکمرانوں کے محلات پر چڑھ دوڑے۔کیونکہ وہاں عوام کی خدمت کے بجائے حکومتوں نے سارے وسائل طبقہ اشرافہ کوخوش حال کرنے پر صرف کیے تھے۔ چنانچہ اب ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چار نہیں۔
بند مُٹھی سے وقت ریت کی مانندذرا ذراکر کے پھسل رہاہے۔ ترقی اور معیشت کے موجودہ ماڈل کو بدلناہوگا۔ سرکاری ملازمین کی فوج ظفر موج کو کم کیا جاسکتاہے۔ٹیکنالوجی کی مدد سے شہریوں کوسہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ حکمران اور سرکاری حکام کاروبار سے دور رہیں تو ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا۔حکمران اپنے خاندانوں کو سرکاری ٹھیکوں اور مراعات سے دوررکھیں۔ سرکاری ادارے بھی کاروباری سرگرمیوں میں براہ راست شریک نہ ہوں تاکہ ان کے دامن داغدار نہ ہوں۔ عوام کو غربت کی چکی سے نکالنا حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ترقیاتی منصوبو ں میں اس پہلو کو مدنظر رکھا جائے کہ عام آدمی کو ان منصوبوں سے برائے راست فائدہ پہنچے ۔ایسے منصوبے تشکیل دیئے جائیں جن سے خود انحصاری کی منرل قریب آسکے۔
Comments are closed.