جنوبی ایشیاء کی جغرافیائی حدود کو اگر دھیان سے پڑھا جائے، تو وہاں کم و بیش بائیس کروڑ لوگوں پے مشتمل ایک عجوبہ قسم کی نایاب ملک ہے، جو خود کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے جانا جانے پے عرصہ دراز سے بضد ہے۔ اور صرف یہی نہیں، موصوف کا دعوٰی کچھ زیادہ ہی ناقابل فہم ہے۔ موصوف کا ماننا ہے، حرکتیں ویسے کے ویسے رہیں گے، پر لوگ مجھے سنگاپور یا جاپان سمجھے۔ اب اگر گلوبل سامعین یہ ناممکن فرمائش مانے بھی تو کیوں اور کیسے مانے۔۔۔؟ موصوف عجوبہ گری میں ہمہ وقت نمبر ون پے ہی رہتی ہے۔ ویسا اس غیر شرعی اور غیر حقیقی ہدف کو حاصل کرنے کا میرے پاس ایک معصومانہ مشورہ ہے۔ وہ اسطرح کہ انٹرنیشنل میڈیا، ہومن رائٹ واچ اور کچھ لوکل غیر جانبدار، حق بجانب اور خوددار صحافیوں کو بھی لفافے یا ڈھالا گردی سے قابو کرکے ان چند خود ساختہ سینئر مگر پالتو کتوں کا کردار ادا کرنے والے صحافیوں کے صف میں لاکے کھڑا کی جائے۔ ورنہ اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کا کوئی خاطرخواہ امکانات مستقبل قریب میں مجھے تو کم از کم نہیں نظر آرہیں۔ یہاں پے ہر وہ کام چٹکی میں ہوجاتا ہے، جس کو کرنے کے لئے تہذیب یافتہ ممالک دس دس سال ریسرچ کرکے کتنے وسائل بےدریغ بہا دینے کے بعد کہیں جاکے بمشکل طریقہ ڈھونڈ پاتے ہیں۔ یہاں پے وہی کام، وہی فارمولا لاوارث پارکوں کے کونے پے بیٹھا ڈسٹ و غبار کا نظارہ پیش کرنے والا ایک پاؤڈری آپ کو مذاق مذاق میں بتا دیتا ہے۔ ویسا اگر سچ بولا جائے تو یہاں پے ٹیلنٹ کی کوئی فقدان نہیں۔ اسی پاکستان نے انجنئیر مجیب اعجاز پیدا کیا ہے، جو آج کے زمانے میں بطور کنسلٹنٹ ٹیسلہ کمپنی کے ساتھ کام کرتا ہے۔ ویسا اس ملک نے وائرس اور اینٹی وائرس کے موجد بھی اپنی دامن میں سموئے بیٹھی ہے۔ اسی ملک نے کسی زمانے میں جرمنی جیسی ملک کو امداد کے طور پر پیسے بھی دی تھی۔ اور یہی نہیں موصوف کی پی آئی اے نے فلائی امارت کو ایک دور میں بطور تحفہ اپنی مہارت سمیت پہلا جہاز بھی تحفے میں دی تھی، اور آج فلائی امارت کا شمار دنیا کے بہترین ائیر لائنز میں ہوتا ہے اور پی آئی اے کی خستہ حالی کا یہ عالم کہ ترقی یافتہ ممالک ہماری پروازیں ہی بند کر رکھے ہیں۔ یہ وہی پی آئی اے ہے جو 1980 کے دہائی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو کرکٹ کے لئے سپانسر کیا کرتی تھی اور آج اپنے ہی ملازمین کو تنخواہ دینے کے پیسے نہیں۔ اس ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں سوائے محنت کرنے والے، ایماندار، مٹی کے ساتھ مخلص، ملک کا سوچنے والے اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے والے لوگوں کے۔
اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پے خیالی فرشتے بسا کرتے ہیں۔ نام سے تو موصوف اسلامی بھی ہے اور جمہوریہ بھی ہے۔ اسلامی ہونے کا زمینی حقائق اگر دیکھا جائے تو موصوف سے اسلام نہ صرف شرمائیں، بلکہ ممکن ہوتا تو شاید اسلام اس سے مکمل لاتعلقی کا اظہار بھی کریں۔ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔۔۔؟ اسلام انصاف کی بات کرتا، برابری کی بات کرتا ہے۔ اسلام ناپ تول میں ضرورت سے زیادہ محتاط رہنے کی بات کرتا ہے، بھائی چارے کی بات کرتا ہے۔ اسلام گھل مل کے رہنے کی بات کرتا ہے، ایک دوسرے کے عقیدے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ رشوت لینے، سفارش کرنے اور فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتنے کو اسلام میں سخت ناپسند فرمایا گیا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ لیکن موصوف اسلام کے نام پے بدنما داغ ثابت ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں پے چوری کی حوصلہ شکنی تو دور چوروں کا ٹولہ تختہ اقتدار پے قابض ہیں۔ چوری یہاں پے اس قدر عام ہے کہ پانی کے کولر پے رکھے دس روپے کے گلاس کو پچاس روپے کا ذنجیر اور تالہ لگا کے باندھ دیا جاتا ہے۔ مسجد کے واش روم میں رکھے لوٹے اور مسجد کے باہر چھوڑے جوتے محفوظ نہیں۔ سود کھانے یا سود کو تقویت دینے کا مطلب اللہ پاک کے ساتھ اعلان جنگ تصور کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان میں کمرشل بینک مغربی ممالک سے بھی زیادہ کامیاب کاروبار کر رہیں ہیں۔ اسلام ہی کی تعلیمات میں سے ہے کہ "تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں”، موصوف کی نظر میں بھائی بھائی ہونا تو دور، یہاں پے بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ پیچھے کھڑے ہوکے نماز پڑھنے کے لئے ایک عام مسلمان عالم یا مولانا کا انتخاب تو خیر، ایک مخصوص فرقے کا بھی نہیں بلکہ تسلی بخش جانچ پڑتال کے بعد ایک مخصوص طبقہ فکر کا امام کے پیچھے کھڑا ہوکے نماز پڑھنے کو اسلامی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ اتنا ہی نہیں، ایک مسجد کے منبر پے کھڑے مولانا اگلے مسجد میں کھڑے نمازیوں کو گاہے بَہ گاہے کافر ہونے کا ایک انتہائی دلخراش اور خودساختہ فیصلہ صادر فرمایا کرتا ہے اور انھیں کے پیچھے کھڑے نمازی بڑی ڈھٹائی سے سبحان اللہ کہ کر جھوم اٹھتے ہیں۔ ایمانداری اور پارسا ہونے کا عالم یہ ہے کہ، یہاں پے گریڈ ون سے لے کر گریڈ بائیس تک کے سرکاری ملازمین رشوت کو اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں۔ سفارش کے علاوہ نوکری حاصل کرنا محض خواب کے کچھ نہیں۔ یہاں پے مذہب، فرقے اور قومیت کو بنیاد بناکے ایک دوسرے سے نفرت کرنے کو اس قوم کی پسندیدہ مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پے مذہب ایسا بکتا ہے، جیسا کہ کراچی کے "اماں شریف” پان شاپ پے پان بکتا ہو۔
اب موصوف کی جمہوری ہونے کا دعوٰی کس قدر درست ہے۔۔۔؟ اس مناسبت سے اگر ہم آئین کے وہ آرٹیکلز پڑھے، جو جمہور کی بات کرتی ہے، ایسا لگتا ہے اس سے موضوع اور بہترین جمہوری ملک شاید ہی دنیا میں کہیں وجود رکھتی ہے۔ لیکن پھر سے خیال آتا ہے، اگر ایسا ہے تو انسانی حقوق کی پامالی میں موصوف ہمہ وقت صف اول پے کیوں کھڑی ہے۔۔۔؟ جبری گمشدگی والا انسانیت کی تاریخ کا یہ بدنما رواج یہاں کیوں پایا جاتا ہے۔۔۔؟ اگر ایسا ہے تو غریب عوام کے وسائل پے سنگدلی سے قبضہ کرنے کا یہ روایت یہاں پے کیسے جنم لیا۔۔۔؟ اگر موصوف سچ مچ میں جمہوری ملک ہے تو یہاں پے میڈیا، عدلیہ اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی مرضی سے کام کیوں نہیں کر سکتے۔۔۔؟ اگر موصوف آئین کی آرٹیکل 19 اور 19 اے کی یقین دہانی پے مخلص ہے تو صحافی راشد منہاس کشمیر کابینہ میں وزیر کیوں بنا۔۔۔؟ صحافی جاوید مالک بحرین کا سفیر کیسے بنے۔۔۔؟ صحافی فہد حسین وزیراعظم کا ماون خصوصی کیونکر ٹھہرے۔۔۔؟ پاکستانی صحافت کے چند اور بڑے نام سینئر صحافی سے لفافی صحافی کا سفر کیسے طے کر پائیں۔۔۔؟ موصوف اگر حقیقی جمہوری نظام پے دل سے یقین رکھتی ہے تو پھر یہ مقدس گائے کیوں پال رکھی ہے۔۔۔؟ پاکستان کو اگر عمر کے لحاظ سے پرکھا جائے تو اسے اب تک عالم انسانیت کے لئے اسلام اور جمہوریت کا درس گاہ ہونی چاہئے تھی، لیکن یہ بدقسمتی سے آج بھی وہی نمونہ اور عالم انسانیت کے لئے مذاق کا مرکز ہونے کے اور کچھ نہیں کرپائی۔ یقینا یہ سب کچھ اب ضرورت اور حد سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے، ہمیں ماضی کی تجربات کو بنیاد بناکے اپنے اور اس ملک کے ساتھ مخلصی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں عملی جمہوریت کو پروان چڑھانے کے لئے دن رات محنت کرنا چاہیے۔ اس ملک میں سوائے مخلص لیڈرشپ کے کسی چیز کی کمی نہیں۔ جتنے متنوع معاشی وسائل اس ملک کے پاس ہیں، شاید ہی کسی ملک کو یہ اعزاز حاصل ہو، پھر بھی اس کی بدقسمتی کا یہ عالم کہ، برائے نام منتخب سیاسی نمائندے جہاں بھی جائے، بھیک مانگنے کے اور کچھ نہیں کرتے۔ اگر اس ملک کو غیر جمہوری طاقتوں کی ناجائز قبضے سے چھڑوا کے حقیقی جمہوریت کے راستے پے استوار کیا جائے تو شاید ہی پانچ سال کے قلیل عرصے میں یہ ملک کشکول کے بجائے سر اٹھا کے چلنے کا قابل ہوجائے۔ یہ سب کرنے کے لئے ہمیں مطلوبہ مشقت اور قربانی کو یقینی بناکے مدد کے لیے اپنی روایتی انداز میں مغربی ممالک کے بجائے اللہ کیطرف دیکھنا ہوگا۔ اسی حوالے سے اکبر الہ آبادی نے کیا خوب فرمایا ہے۔
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
Comments are closed.