وہ میری زندگی کا ایک یادگار دن تھا جب میں اِس باریش اور پروقار شخصیت سے ملا۔ میں دل ہی دل میں بڑا خوش تھا کیوں کہ میں پہلی بار ایسے کسی شخص سے مل رہا تھا جو کروڑ پتی تھا۔ یہ الگ بات کہ جب بعد میں میری زندگی کا ایکسپوئر بڑھا اور رنگ رنگ کے لوگوں سے تعلق بنا تو ان میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جن کے اثاثے اربوں ڈالرز کے تھے، بہر حال اس دن خالد مقبول صاحب سے ملاقات اس لحاظ سے بھی یادگار تھی کہ وہ میری انسپائریشن تھے۔ اس ملاقات کے بعد ہمارا یہ تعلق مضبوط ہوتا گیا اور وہ مجھے پیار سے ’’چھوٹا بھائی‘‘ کہنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے اس بات کا انکشاف کرکے مجھے حیران کردیا کہ وہ خود مجھ سے تعلق رکھنا چاہ رہے تھے اور ا س کی بنیاد انھوں نے ایک واقعہ کو قرار دیا۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ ہم کسی ریسٹورنٹ میں مدعو تھے۔ کھانے کی میز پر خالد مقبول صاحب کے ساتھ ساتھ چند ایسے لوگ بھی موجود تھے جو کافی خوش حال تھے۔ کھانا ختم ہوا، وہ لوگ گپ شپ میں مصروف تھے کہ میں چپکے سے کاؤنٹر پر پہنچا اور بل ادا کرکے نکل آیا، لیکن خالد مقبول صاحب جیسے جہان دیدہ شخص نے میرے اس فعل کو نوٹ کرلیا۔ خالد صاحب نے مجھے بتایا کہ’’ میں حیران تھا کہ ایک لڑکا جو موٹر سائیکل پر آیا ہے او ر مالی اعتبار سے ہم سے بہت کم ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ہم جیسے خوش حال لوگوں کا بل ادا کر رہا ہے، ضرور اس میں کچھ خاص بات ہے۔‘‘
ایک دن انھوں نے ایک اور بات کہہ کر مجھے دوسری بار حیران کرکے رکھ دیا۔ کہنے لگے ’’چھوٹے بھائی! میں اس دنیا کا امیر ترین انسان ہوں۔‘‘ایک لمحے کے لیے تو میں گڑبڑا گیا لیکن پھر میں نے عرض کیا کہ حضور! وہ کیسے؟ بولے: ’’ مجھے اللہ نے جس طرح کے دوستوں، لوگوں اور اساتذہ سے نوازا ہے یہ دولت دنیا کے کسی اور انسان کے پاس نہیں ہے اور اس بنا پر میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ میں دنیا کا امیر ترین انسان ہوں۔‘‘
خالد مقبول صاحب کی یہ بات دیر تک میرے دماغ میں گونجتی رہی، بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ جملہ مجھے لڑ گیا، میں نے اس جملے کو اپنے پلے باندھ لیا۔ کچھ ہی دنوں بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول میری نظروں سے گزرا، جس نے اس نکتے کومزید واضح کر دیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ دنیا کا غریب ترین انسان وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہے۔ واہ۔۔۔ کیا حکمت بھری بات ہے۔واقعی انسان کے پاس اگر کوئی غم گسار نہ ہو، کوئی ایسا دوست نہ ہو جس سے وہ اپنے دل کی بات کہہ سکے تو اس کی خوشیاں غارت ہوجاتی ہیں اور باوجود ہر طرح کی آسائشات کے بھی وہ خود کو مایوس، ناامید اور تنہا محسوس کرتا ہے۔ آپ کو یقین نہ آئے تو گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میں ہونے والی خودکشیوں کے کیسز دیکھ لیں، یہ وہی لوگ تھے جن کے پاس درد دِل سنانے کے لیے کوئی انسان نہیں تھا، جن کے پاس کوئی کندھا نہیں تھا جس پر سر رکھ کر یہ رولیتے اور نہ کوئی ایسا یار بیلی تھا جوٹھوکر لگنے کے بعد ہاتھ بڑھاکر انھیں اٹھاتا اور گلے سے لگاکر زندگی کی جانب بڑھاتا۔
مخلص دوست کشن کی مانند ہوتے ہیں۔انسان اگرزندگی کی ٹھوکروں سے گربھی جائے تو یہ دوست اپنے خلوص ، محبت اور وفاداری سے کشن کافریضہ سرانجام دیتے ہیں اور انسان کو زخمی نہیں ہونے دیتے۔یقیناوہ لوگ بڑے خوش قسمت ہیں جو آج کے تیز رفتار زمانے میں بھی دوسرے انسانوں کے دل میں اپنے لیے جگہ بنالیتے ہیں اور اپنے اردگرد میلہ سجالیتے ہیں ، جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس بہت کچھ ہوتاہے لیکن مخلص لوگ نہیں ہوتے اور جس طرح فضول خرچ انسان کی جیب میں پیسے نہیں ٹکتے، اسی طرح اِن کی زندگیوں میں بھی اچھے لوگ آتے توہیں لیکن ٹکتے نہیں ہیں۔
اس کی کیا وجہ ہے؟
دراصل جب بھی کوئی شخص کسی انسان کی اصل قدر و قیمت کو نہ پہچانے تو وہ انسان اس کی زندگی سے نکل جاتاہے۔ ہماری زندگی میں قابل اور کمزور ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔اب سمجھ دار انسان وہی ہے جو ہر انسان کی قابلیت اورصلاحیت کے مطابق اس کے ساتھ معاملات کرے ، لیکن جو شخص بھی کسی انسان کی استطاعت سے بڑھ کر اس کو استعمال کرنے کی کوشش کرے ،مثال کے طورپر کسی انسان کی صلاحیت پچاس کلوگرام وزن اٹھانے کی ہے اور آپ اس سے 100کلواٹھوائیں گے تو وہ بہت جلد بھاگ جائے گا۔
اسی طرح کسی انسان سے ایسا کام لینا جو اس کی شایان شان ہی نہیں ، یہ بھی زیادتی ہے۔ مثال کے طورپر ہوائی جہاز اڑنے کے لیے بنا ہے لیکن اگرمیں اس کو عام سی سڑک پر لاکر چلانا شروع کروں تو یہ ہوائی جہاز کی توہین ہے۔ایسے ہی وہ شخص بھی اس بات کو اپنی توہین سمجھتاہے اگر آپ اس کوایسے کسی کام میں ڈالیں جو اس کی قدروقیمت سے بہت کم ہے۔
دوسری چیز ادب و احترام ہے۔
ہر وہ شخص جس کے اندر ادب واحترام نہیں ہے تو اس کے پاس بھی لوگ نہیں رہتے۔خاص طورپر اگر آپ کا تعلق اپنے سے بڑے کسی صاحب علم شخص کے ساتھ ہے تو پھر تو آپ کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ آپ اس کی بھرپور عزت کریں۔بڑے بندے کے ساتھ تعلق نبھانے میں آپ فوری طورپر یہ فیصلہ کریں کہ وہ شخص Giver(دینے والا)اورآپ Receiver(وصول کرنے والا)ہیں۔جب بھی کوئی تعلق GivingاورReceivingکا ہوتاہے تو پھر وہ برابری کا نہیں رہتا، اس میں ایک شخص افضل ضرور ہوتاہے اور اب دوسرے پرلازم ہے کہ وہ افضل انسان کی عزت کرے ، وگرنہ پھر یہ تعلق باقی نہیں رہے گا۔
میں نے اپنی زندگی میں واصف علی واصف ، سید سرفراز شاہ ، بابا عرفان الحق ، امجد اسلام امجد اور عطاء الحق قاسمی جیسے جتنے بھی بڑے اساتذہ دیکھے ہیں ،ان سب کے اندر ایک خوبی مشترک ہے ۔یہ سب احسان مندرہے اور اب بھی ہیں۔یہ ان لوگوں کابھرپور احترام کرتے ہیں جن سے یہ کچھ حاصل کرتے ہیں اور ان کی بھی قدر کرتے ہیں جو ان کے پاس کچھ حاصل کرنے کے لیے آجاتے ہیں۔
البتہ یہ بات ضرورہے کہ کسی سے اختلاف رائے رکھنا بے ادبی کے زمرے میں نہیں آتا۔میری زندگی میں کئی سارے لوگ ایسے ہیں جن سے مجھے فکری یا فقہی اختلاف ہے ،کیوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے سوچنے والا دماغ دیا ہے ۔میں ہر چیز اپنے علم ، تجربے اورعقل کی کسوٹی پر رکھ کر تولتاہوں ، پھر اس کو زندگی میں شامل کرتاہوںاور اسی بنیاد پر اختلاف رائے بھی رکھتاہوں لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے بڑوں اور اساتذہ کا دلی احترام کرتاہوں اور ان کے قدموں میں بیٹھنے کواپنے لیے اعزاز سمجھتاہوں۔
آج ہمارے طلبہ کا ایک بڑا گلہ یہ ہے کہ ہمیں کوئی اچھا استاد نہیں ملتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ کسی اچھے استاد سے پوچھیں تو وہ یہ شکوہ کرے گا کہ اچھا طالب علم نہیں ملتا۔انسان اچھا بن جائے تو اس کو اچھے لوگ مل جاتے ہیں۔جیسے رومیؒ کی سچی تلاش نے انھیں اپنے مرشد سے ملادیا تھا۔مولاناجلال الدین رومیؒ اپنے وقت کے ایک نامور عالم دین تھے، جنھیں اسلامی علوم و فنون پر بھرپور مہارت حاصل تھی۔مورخین لکھتے ہیں کہ ان کے مدرسہ میں دواتوں کی تعداد تقریباً 9ہزار تھی ۔ پھر طلبہ کتنے ہوں گے ، آپ خود اندازہ لگائیے۔مولاناجلال الدین رومی ؒ بڑی شان کے ساتھ اپنی مسند پرجلوہ افروز تھے ۔ان کے پیچھے وہ تمام کتابیں پڑی تھیں جو انھوں نے اپنے ہاتھ سے لکھی تھیں۔ان کے سامنے طلبہ کی ایک کثیرتعداد بیٹھی علم کے موتی سمیٹ رہی تھی۔مولاناجلال الدین رومی ؒ علمی نکات کے پرت کھول کھول کر بیان کررہے تھے ، ماحول پر ان کی آواز ، جوش و لولے اور علمی رعب کا دبدبہ تھا کہ اتنے میں ایک درویش ان کی مسند کے سامنے آکھڑاہوا۔ درویش نے ان کے پڑھانے میں خلل ڈالا اور پوچھا ،’’ یہ تم کیا پڑھارہے ہو؟ ‘‘مولاناجلال الدین رومی ؒ بولے: ’’بابا، یہ علم ہے لیکن تجھے کیاپتہ کہ صرف ، نحو ، تفسیر اورفقہ کیاہوتاہے؟ ‘‘درویش جلال میں آگیا۔اس نے وہ تمام کتابیں اٹھائیں اور پاس والے تالاب میں پھینک دیں۔لمحے بھر میں کتابوں کی روشنائی سے تالاب کا پانی سیاہ ہونے لگا۔مولاناجلال الدین رومی ؒ شدید صدمے میں چلے گئے، کیوں کہ یہ ان کی عمر بھر کی محنت تھی۔وہ چلائے، ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ درویش نے تالاب میں ہاتھ ڈالا اور ایک ایک کتاب نکال کر جھاڑتے رہے اور اپنی جگہ پر رکھتے رہے۔مولاناجلال الدین رومی ؒکودھچکا لگا، انھوں نے پوچھا ، ’’یہ کون سا علم ہے؟‘‘ درویش بولا:’’ تم اپنا علم پڑھاؤ، یہ میراعلم ہے۔‘‘درویش وہاں سے چلے گئے اور مولاناجلال الدین رومی ؒ نے اسی دن اپنا مدرسہ ، کتابیں اور خطابت و امامت چھوڑدی اور درویش کی تلاش شروع کردی۔ایک لمبے عرصے بعد جب ملاقات ہوئی تو رومی ان کے قدموں میں بیٹھ گئے او ربولے:’’آپ کو تلاش کرنے میں مجھے تین سال لگ گئے۔‘‘شمس تبریزؒ بولے: تمھیں تین سال لگے ، مجھے تو تیراجیساشاگرد تلاش کرنے میں 30سال لگ گئے۔‘‘
انسان کی تلاش سچی ہو تو اس کو راہ مل ہی جاتی ہے لیکن اگر وہ سچا نہیں ہے تو پھر کوئی سچا شخص بھی اس کے کام نہیں آئے گا ۔جھوٹا انسان سچے پیر کے پاس پہنچ کر بھی بے فیض رہتاہے۔واصف صاحب فرماتے ہیں کہ سچا مرید جھوٹے پیر سے بھی راہ لے لیتا ہے۔مرشد اور استاد تک پہنچنے کے لیے سچا ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بنیادی مینرز اور آداب بھی سیکھیں۔آپ کو انسانوں کااور خاص طورپر بڑے لوگوں کا مزاج سمجھنا ضروری ہے۔آپ یہ بھی سیکھیں کہ کس انسان کی محفل میں بیٹھنے کا طریقہ کیا ہے۔اس کا پروٹوکول کیا ہے۔وہ کون سی باتوں کا اہمیت دیتاہے اور کس چیز پر ناراض ہوتاہے۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سیکھیں کہ وہ آپ کو کس حد تک آزادی دے رہا ہے اور وہ کون سی حدود ہیں جن کے آگے جانے کی آپ کو اجازت نہیں۔
جب آپ بنیادی مینرز اور آداب سیکھ لیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ آپ کے استاد اور مرشد کی اصل ضرورت کیا ہے۔آپ اس کے لیے ایسا کیا کرسکتے ہیں جس کی بدولت وہ صحیح معنوں میں آپ سے خوش ہوجائے ۔یادرکھیں کہ ہر شخص مٹھائی کے تحفے سے خوش نہیں ہوتا، ہر بندے کو فروٹ یا کیک کی ضرورت نہیں ہوتی۔بعض اوقات استاد اور مرشد کوبڑی معمولی چیز کی ضرورت ہوتی ہے لیکن شاگر دناسمجھی میں بہت زیادہ تکلف کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے بہت بڑی خدمت کرلی ہے ،جبکہ استادکو خوشی کے بجائے تکلیف ملتی ہے۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے استاد کو پیناڈول کی ایک گولی چاہیے لیکن شاگرد بجری کا پورا ٹرک لے کر آجائے تو اب آپ خود سوچیں کہ استاد کے دل پر کیا گزرے گی۔
استاد اور مرشد کی خدمت کا درست طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کے مشن کو آگے بڑھائیں ، اس میں معاون بنیں اور اپنی قابلیت کی بدولت ایسا کچھ کریں جس کی وجہ سے ان کی زندگی میں کوئی آسانی آجائے ، کوئی ویلیو ایڈ ہوجائے۔جب بھی آپ کے اندر یہ قابلیت ہوگی تو پھر ہر بڑا انسان آپ کو اپنی زندگی میں ضرورشامل کرناچاہے گا۔
Comments are closed.