خالق کائنات نے اپنی تخلیق کا نکتہ عروج حضرت انسان کو بنایا اورکائنات ارضی کی رونقیں اسی کے وجود سے ہیں۔ وجود مرد وزن ہی بقائے انسانیت کا ضامن ہے۔ قدرت نے پیدائشی طور پر مردوں عورتوں میں ایک دوسرے کیلئے ایک خاص قسم کی کشش رکھ دی ہے۔ یہی جذبہ ان کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جس طرح آگ اور بارود میں ایک دوسرے کیلئے کشش ہے۔ اگر ہر جگہ کھلے عام آگ اور بارود کو بکھیر دیا جائے توتباہی اور بربادی پھیل جائے گی، لھذا ان دونوں کو قابو اورحفاظت میں رکھ کر خاص ضابطہ کے تحت ان سے کام لیا جاتا ہے۔ سیمنٹ بنانے ، پہاڑوں میں سرنگیں نکالنے یا دیگر مواقع پر آگ اور بارود کو اکٹھا کر کے ضروری مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔
اسی طرح عورت مرد کا تعلق بھی اخلاقی ضابطوں کی سرحدیں عبور کر کے بیلاگ ہوجائے، تو یہاں بھی سماجی بم پھٹنے یا ٹھس ٹھس کے امکانات باقی رہتے ہیں۔ زندگی کے مختلف ادوار میں مذہب بیزار معاشرے عورت مرد کے تعلقات میں افراط و تفریط کا شکار رہے۔ عورت بازاروں میں بکی، پیدا ہوتے ہی قتل ہوئی اور کبھی اسے پاؤں کی جوتی سے بھی کم وقعت دی گئی۔پھر یہ بھی ہوا کہ اسے آزادی کا جھانسہ دیکر اس کی عزت و آبرو کو سر بازار نیلام کیا گیا ۔اس وقت کرہ ارضی پر اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے صدیوں کی ٹھکرائی اور روندی ہوئی مظلوم عورت کو فطری حدود کے اندر جائز اور مکمل آزادی عطا کی۔ اسے ماں بہن، بیٹی اور بیوی کے طور پر باعزت مقام عطا کیا۔ یہ تعلق متوازی ہونے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے افراط و تفریط سے یکسر پاک ہے۔
اسلام کی نظر میں مردوں اور عورتوں میں سے اسی کا مقام بلند ہے جو تقوی کا اعلی معیار قائم کرے۔ اسلام نے عورت میں احساسِ کمتری پیدا نہیں کی بلکہ عورت کو ہر روحانی اور اخلاقی بلندی تک پہنچنے کے قابل سمجھا ہے۔ سچی مسلمان عورت کیلئے رول ماڈل خاتون جنت حضرت فاطمہ الزہرہ اور امہات المومنین رضی اﷲ عنہن کا کردار ہے۔صرف رب العالمین کی ہی وہ ذات ہے جو مرد وزن کے باہمی رشتوں کی حکمتوں سے آگاہ ہے کیونکہ پیدا جو اسی نے کیا ۔ اس نے انبیاء و رسل علیہم السلام کے ذریعے جو ضابطے عطا فرمائے انہیں سے زندگی کے حقیقی مقاصد کا حصول ممکن ہے۔ دور حاضر کا خود ساختہ مہذب انسان معلوم انسانی تاریخ میں بے حیائی کا عالمی چیمپئن ہے۔ پہلے عورتوں اور مردوں کا آزادانہ اختلاط کیا جاتا ہے۔
جب فکری تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ جنسی تعلقات یا لوازمات قائم کر لیتے ہیں تو پھر سر عام اس کا وایلا کر کے ایک نیا پنڈورا باکس کھول کر جنسی بے راہ روی کی لیکس کا سلسلہ شروع کر دیاجاتا ہے۔ یہاں ماضی قریب کی ایک مثال ذہن نشین رہے کہ کچھ سال قبل ذرائع ابلاغ میں ایک مہم زوروں پر رہی جس کا نام تھا’’ ہیش ٹیگ می ٹو(Me Too)‘‘۔ اس مہم کے ذریعہ خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں، استحصال اور بدسلوکی کے خلاف آواز بلند کی جاتی رہی۔ یہ تحریک 2006ء میں امریکہ میں ایک سماجی کارکن خاتون ٹرانا برکی Tarana Burke نے شروع کی تھی۔ ٹائم میگزین نے انہیں2017ء میں اسی کام کے صلے میں’’Person of the year‘‘کا خطاب بھی دیا تھا۔ یہ تحریک امریکہ سے نکل کر دنیا کے کئی ممالک میں پھیل گئی۔
یہ طوفان یورپ سے ہوتا ہوا ایشیا تک پہنچ گیا۔ہیش ٹیگ می ٹو(Me Too کے نام پر پاکستان اور ہندوستان میں بھی کچھ فلموں اور ڈراموں کی اداکاراؤں نے اپنے مرد رفقائے کار کے خلاف جنسی استحصال کی شکایات کیں بلکہ کیسز عدالتوں میں بھی چلتے رہے۔اصولی طور پر بات درست ہے کہ عورت کا جنسی استحصال نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ کسی عزت مآب عورت کی عصمت سر بازار نیلام کرے۔ جو باوقار عورتیں مختلف شعبہ جات میں کام کر رہی ہیں ان کی عزت و آبرو کی حفاظت متعلقہ شعبہ جات اور حکومتوں کا فرض ہے۔ یقینا ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے جو بیہودہ ذہنیت اور فرسودہ اخلاق کی وجہ سے ان عورتوں کے ساتھ ناروا رویہ رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عورتوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنا لباس باقار، رویہ شائستہ اور کردار قابل رشک بنائیں۔
کسی کو جرئت نہیں ہوگی کہ ان سے دست درازی کرے۔ پہلے دوستیاں اور افیئر چلا کر انجوائے کریں۔ جب پانی سر سے اوپر چلا جائے تو پھر ’’ ہیش ٹیگ می ٹو کو‘‘ استعمال کر کے زیادتی شکایات کرنا بھی غیر منطقی فعل اور لایعنی پریکٹس ہے۔ جہاں تک فلمی اداکاراؤں کی شکایات کا تعلق ہے وہ بھی کئی ایک عجائبات کا نمونہ ہیں۔فلم اور بیہودہ ڈراموں کی دنیا بے حیائی ،فحاشی اور اخلاق باختگی کامرکز ہے۔ خاتون کا اپنے حسن وشباب کے جلوے بکھیر نا ،فحش مزاج مردوں کے سامنے رقص وسرور کی محفلیں سجانا، ان کے سفلی اور جنسی جذبات کو بھڑکانااور پھر ان سے شرافت وشائستگی اور اپنی عفت وپاکدامنی کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسی زمین پر ہم نے زندہ رہنا ہے۔
بے حیائی اور فحاشی اسلام کی نظر میں قابل مذمت ہیں۔ ہم یہاں پاکیزہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہماری بچیاں عفت و عصمت کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ اس کا طریقہ صرف ایک ہی ہے کہ ہم با عمل مسلمان بن کر زندگی کے شب و روز گزاریں۔ ہمہ وقت آخرت کی جواب دہی کو ذہن میں رکھیں۔ اسلام نے عورت کو خاص حدود و قیود کے ساتھ عزت اور آزادی دی ہے۔مشرقی سماج اور روایات میں خواتین کا گھر سے باہر قدم رکھنا اور غیر محرم کے ساتھ میل جول معیوب اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن عصر حاضر میں مغربی ممالک کی تہذیب کی نقالی، دنیا پرستی، دین سے بے خبری وبے زاری اور کچھ نئے زمانے کے تقاضوں اور ضرورتوں جیسے مختلف عوامل کے پیش نظر سماج کی سوچ اور روایات میں کافی تبدیلی آئی ہے۔
زندگی کے لگ بھگ سارے ہی میدانوں میں صنف نازک کہی جانے والی خواتین مردوں کے ہم پلہ وشانہ بشانہ نظر آتی ہے۔تدریس،صحافت، طب، وکالت، انجنیرنگ،ڈرائیونگ، سرحدوں کی حفاظت اور ملک وقوم کی قیادت جیسے امور سنبھال رہی ہیں، ایسے میں ضروری ہوجاتا ہے کہ بہتر معاشرے کی تشکیل کے لئے اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔
Comments are closed.